دو پیسے کی گڑیا’ آنہ سرمنڈائی

میاں راشد حسین شہید میموریل ہسپتال پبی میں مریضوں کے لئے 114 بستروں کے مقابلے میں 175 نائب قاصدوں کی تعیناتی پر یہ مقولہ پوری طرح صادق آتا ہے کہ دوپیسے کی گڑیا ‘ آنہ سرمنڈائی’ یہ تو ایسی ہی صورتحال ہے کہ ہر بستر کے مقابلے میں ایک سے زائد نائب قاصد کام کر کے گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں ہسپتال کا اندراج یقینی بنانے کے چکر میں ہیں’ اس پر سبحان اللہ ‘ ماشاء اللہ بلکہ الحمد للہ ہی کہا جا سکتا ہے کہ کہاں صوبے کے دیگر بڑے ہسپتالوں میں ضرورت سے بھی کم عملہ موجود ہے اور مریضوں کو ان کی جھڑکیاں سننے پر بھی مجبور ہونا پڑتا ہے جبکہ مذکورہ ہسپتال میں مریضوں کی تعدا د سے بھی کہیں زیادہ نائب قاصد بھرتی کئے گئے ہیں جس کی وجہ سمجھ میں نہیں آئی’ ماسوائے اس کے کہ جس بھی”بڑے ‘طاقتور اور بااختیار” صاحب کا بس چلا ہے اس نے سیاسی یا کسی اور بنیاد پر اپنے من پسند افراد کو بھرتی کر کے مقصد کے حصول میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیئے ہوں’ ہمارے ہاں سیاسی بنیادوں پر مختلف محکموں اور اداروں میں بھرتی کی بدعت کوئی نئی بات نہیں تاہم ہر محکمے اور ادارے کیلئے مخصوص بجٹ اور ضرورت کے تحت اسامیاں منظور کی جاتی ہیں’ یقیناً میاں راشد حسین شہید میموریل ہسپتال بھی مروجہ قوانین کے دائرے سے باہر نہیں ہو سکتا اور اس میں بھی اوپرکی سطح سے لے کر یعنی ایڈمنسٹریٹر (سینئر ترین ڈاکٹر) کے بعد ڈاکٹروں’ نرسز (میل، فی میل) ٹیکنیشنز اور دیگر متعلقہ عملہ کی تعداد منصوبے کے تحت پہلے ہی سے مقرر کی گئی ہو گی اور ہر شعبے کے لئے مقررہ اسامیوں سے زیادہ افراد کو بھرتی کرنے کاکوئی جواز تو نظر نہیں آتا’ تو پھر وہ کونسے عوامل تھے اور کون لوگ تھے جنہوں نے سفارش پر اتنی بڑی تعداد میں نہ صرف نائب قاصد بھرتی کر لئے اور ان کی تنخواہوں اور دیگر مراعات کیلئے فنڈز بھی مختص کروا لئے’ اس بے قاعدگی پر کسی بھی متعلقہ سیکشن سے کبھی کوئی اعتراض اٹھایاگیا یا مکمل خاموشی اختیار کرکے ”طاقتور حلقوں” کی خوشنودی کا سامان کیا گیا؟ اب یہ کہا جا رہا ہے کہ اضافی عملہ تبدیل کردیں گے’ سوال مگر یہ پیدا ہوتا ہے کہ قومی خزانے کی اس بربادی کا ذمہ دار کون کون ہے پہلے اس بات کا تعین کیا جائے اور پھر اضافی عملے کی دوسرے ہسپتالوں میں کھپت کے حوالے سے اتنی اسامیاں وہاں موجود ہیں یا پھر اس قسم کے اعلانات سے گندگی پر مٹی ڈالنے کی کوشش مقصود ہے؟ اور جو لوگ دور دراز علاقوں میں تبدیل کئے جائیں گے وہ اس پر احتجاج کر کے محکمہ کو نئی آزمائش میں نہیں ڈالیں گے؟۔

مزید پڑھیں:  پاک ایران تجارتی معاہدے اور امریکا