لاک ڈائون میں نرمی کیساتھ ہی پاکستان میںکورونا کیسز کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے’ گزشتہ 24گھنٹوں کے دوران تقریباً دو ہزار کورونا کے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جبکہ کورونا وائرس سے مزید21افراد موت کے منہ میں چلے گئے ہیں’ یوں پاکستان میں کورونا کیسز کی مجموعی تعداد 29ہزار 465ہو چکی ہے اور اس موذی وباء سے جاں بحق افراد کی تعداد 639تک پہنچ گئی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے کورونا وائرس کے باعث 45روز سے نافذ لاک ڈائون میں نرمی کے بعد جب ملک کے بیشتر علاقوں میں محدود کاروبار کی اجازت دی گئی تو عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور حکومتی فیصلے کا خیر مقدم کیا گیا جب کہ وبائی امراض کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ہم نے اس سے قبل جو لاک ڈائون کیا ہے وہ لاک ڈاؤن کے نام پر محض مذاق تھا کیونکہ لاک ڈائون کے باوجود بڑی تعداد میںلوگ گھروں سے باہر نکل کر معاملات زندگی نمٹاتے نظر آرہے تھے’ اسی طرح بعض طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ جب پاکستان میں کورونا کے عروج کا وقت آیا تو لاک ڈائون میں نرمی کر دی گئی۔ امر واقعہ یہ ہے کہ جن ممالک میں لاک ڈائون میںنرمی یا کاروبار کھولنے کی اجازت دی گئی ہے وہاںکورونا کیسز کی تعداد میں نمایاںکمی کو دیکھ کر لاک ڈائون میں نرمی کا فیصلہ کیا گیا ہے’ چین ‘ جرمنی سمیت جن ممالک نے کورونا پر قابو پا لیا ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہاں کی حکومتوں کی طرف سے زیادہ سے زیادہ ٹیسٹ کیے گئے ‘ جرمنی میں ایک دن میں 50ہزار ٹیسٹ بھی ہوئے جس کے نتیجے میں بظاہر کورونا کے مریضوں کی بڑی تعداد سامنے آئی لیکن تشخیصی عمل مکمل ہونے کے بعد انہوں نے متاثرین کے علاج کی طرف توجہ دی اور عوام کو کورونا کے مہلک اثرات سے آگاہ کیا ،وہاں کے عوام نے بھی کورونا کے مریضوں کی بڑی تعداد کو دیکھتے ہوئے لاک ڈائون پر مکمل عمل کیا یوں آج وہ ممالک اس پوزیشن میں ہیں کہ لاک ڈائون میں نرمی اور کاروبار کو کھول رہے ہیں لیکن پاکستان کا معاملہ اس سے یکسر مختلف ہے’ کیونکہ پاکستان میںکورونا کے ٹیسٹ 12ہزار یومیہ سے زیادہ نہیں ہوئے ہیں یہی وجہ کہ پاکستان میں کورونا کے متاثرین کی درست تعداد بارے حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ طبی ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر پاکستان میں مزید 50 ہزار ٹیسٹ کر لیے جائیں تو کورونا کے 10ہزار مزید مریض سامنے آ جائیں گے۔ طبی ماہرین کے خدشات کے برعکس وزیر اعظم عمران خان 22کروڑ عوام کیلئے فکرمند ہیں’ اور لاک ڈائون میں نرمی کی بنیادی وجہ بھی عوام کی کفالت سے متعلق ہے کیونکہ پاکستان کی معیشت اس کی متحمل نہیں ہو سکتی کہ لوگوں کو گھروںمیں کھانا پہنچا کر اس آفت کے گزرنے کا انتظار کیا جائے’ یہی وجہ ہے کہ طبی ماہرین کے خدشات کے باوجود وزیر اعظم عمران خان نے لاک ڈائون میں نرمی کا اعلان کیا ‘ دریں حالات عوام کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو کورونا سے بچانے کیلئے تمام تر احتیاطی تدابیر اختیارکریں کیونکہ لاک ڈائون میں نرمی کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ کورونا ختم ہو گیا ہے بلکہ پاکستان میں کورونا متاثرین کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے ‘ لاک ڈائون میںنرمی کے فیصلے کو کھلی چھوٹ ہر گز نہ سمجھا جائے بلکہ پہلے سے زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے’ یہ سچ ہے کہ عوام کو گھروں میںٹھہرے ہوئے تقریباً دو ماہ کا عرصہ بیت چکا ہے ‘ دوسرے یہ کہ چند رو ز کے بعد عید ہے ‘ عید کی شاپنگ کیلئے بڑی تعداد میں لوگ گھروں سے باہر نکلیں گے جو تباہی کا باعث ہو سکتا ہے’ اس لئے ضروری ہے کہ جب تک پاکستان میں کورونا کے متاثرین میںکمی یا مکمل طور پر ختم نہیں ہو جاتا عوام اپنے طور پر احتیاطی تدابیر اپنانے میںکوتاہی نہ برتیں’ پاکستان جیسے بڑی آبادی والے ممالک میں حکومتوں پر مکمل انحصار کرنا اور ہر معاملے کا انہیں ذمہ دار ٹھہرانا مناسب نہیں ہو گا’ حالات ہمارے سامنے ہیں اس لئے پاکستانی عوام کو ایک باشعور قوم کے طور پر مثالی کردار ادا کرنا ہو گا اور ہر اس عمل سے گریز کرنا ہو گا جو کورونا کے پھیلاؤ کا سبب بنتا ہو۔