مگس بانی

زیور بیچ کر مگس بانی شروع کی لیکن سیلاب نے سارے خوابوں پر پانی پھیر دیا

(مصباح الدین اتمانی)خیبر پختونخوا کے ضلع مالاکنڈ سے تعلق رکھنے والی 35 سالہ نسرین بی بی پانچ بچوں کی ماں ہیں۔ وہ پچھلے سات سالوں سے مگس بانی سے وابستہ ہیں۔ نسرین خان ان 126 متاثرہ مگس بانوں میں سے ایک ہیں جن کے سینکڑوں شہد کی مکھیوں کے پیٹیاں 2022 کے تباہ کن سیلاب میں بہہ گئے ہیں جس سے نہ صرف مگس بانوں کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوا بلکہ شہد کی مجموعی پیداوار اور برآمدگی میں بھی نمایاں کمی آئی ہے۔
آل پاکستان بی کیپر ایکسپورٹرز اینڈ ہنی ٹریڈرز ایسوسی ایشن کے مطابق خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع میں اکتوبر 2022 کے سیلاب کے دوران شہد کی مکھیوں کے 126 فارمز تباہ ہوئے جبکہ 22 ہزار 936 مکھیوں کے پیٹیاں سیلاب میں بہہ گئے جس سے مگس بانوں کو 23 کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے جبکہ شہد کی پیداوار میں 344 ٹن کمی واقع ہوئی ہے۔
نسرین بی بی نے اپنے تباہ شدہ فارم کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ بچپن سے شہد کی مکھیوں سے لگا تھا اس لیے انہوں نے مگس بانی کی تربیت لی اور پھر اپنا زیور بیچ کر شہد کا کاروبار شروع کیا: ‘میرے 200 سے زیادہ مکھیوں کے بکسے دریائے سوات کے کنارے پڑے تھے کہ اس دوران جولائی 2022 کا سیلاب آیا اور وہ سارے اس کی تیزرفتار موجوں میں بہہ گئے، جس سے میرا تیس لاکھ روپے سے زیادہ کا نقصان ہوا۔’
نسرین کے مطابق اگر ان کے مکھیوں کا فارم سیلاب کی نذر نہ ہوتا تو اس کی پیدوار تین ٹن سے زیادہ ہوتی، ‘آمدن کروڑوں روپے میں ہوتی جس سے زندگی اپنے بچوں کے ہمراہ آرام سے گزر جاتی لیکن اب وہ مقروض ہو چکی ہیں۔ ‘ہماری آمدن کا سارا انحصار شہد کی ان مکھیوں پر تھا، ہم نے بہت کوشش کی لیکن ابھی تک ہمیں کوئی معاوضہ نہیں ملا ہے۔آل پاکستان بی کیپرز ایکسپورٹرز اینڈ ہنی ٹریڈرز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری شیرزمان مہمند کے مطابق انہوں نے دو سو پچاس سے زیادہ خواتین کو مگس بانی کی تربیت دی ہے تاہم حالیہ سیلاب کے بعد خواتین مگس بانوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔

0 کلوگرام شہد پیدا کرنے والی پیٹی اب 5 کلوگرام شہد پیدا کرتی ہے

شیرزمان مہمند آل پاکستان بی کیپرز ایکسپورٹرز اینڈ ہنی ٹریڈرز ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل ہے۔ سیلاب کی وجہ سے شہد کی پیداوار اور برآمد میں کمی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ سیلاب کی وجہ سے اس صنعت کو کافی نقصان پہنچا ہے، سینکڑوں فارمز مکمل تباہ ہوئے ہیں۔ شیرزمان کے مطابق زیادہ تر مکھیاں سیلاب میں بہہ گئی ہیں جبکہ جو بچی ہیں وہ اس قدر متاثر ہوئی ہیں کہ ان میں شہد پیدا کرنے کی صلاحیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ سیلاب سے پہلے ایک پیٹی کی پیداوار 15 سے 20 کلوگرام تھی اب بمشکل 5 سے چھ کلوگرام شہد حاصل ہوتا ہے جس کی وجہ سے سالانہ پیداوار میں نمایاں کمی آئی ہے۔شیرزمان نے بتایا کہ اس سال کم پیداوار کی وجہ سے یہاں کے ایکسپورٹرز نے باہر کی منڈیوں سے رابطہ ہی نہیں کیا۔ ‘سیلاب کے بعد آنے والا سیزن بیر کے شہد کا تھا جس پر مگس بانوں کا سال بھر کا انحصار ہوتا ہے لیکن مکھیوں کی پیٹیاں سیلاب میں بہہ جانے کے بعد سینکڑوں لوگوں نے مایوس ہو کر اس کاروبار کو خیرباد کہہ دیا ہے۔’

ریلیف پالیسی میں شہد کی مکھیاں رجسٹرڈ نہیں

شیرزمان نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ہم نے متاثرہ مگس بانوں کا ڈیٹا اکٹھا کر کے پی ڈی ایم اے کو بھیجا لیکن ان کا کہنا ہے کہ ریلیف پالیسی میں شہد کی مکھیاں رجسٹرڈ نہیں اس لیے وہ ان کو معاوضہ نہیں دے سکتے۔ شیرزمان نے صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا کہ اس کاروبار سے 16 لاکھ افراد وابستہ ہیں لہذا ان کو فوری طوری پر رجسٹرڈ کریں اور متاثرہ مگس بانوں کے کاروبار کی دوبارہ بحالی میں ان کی مدد کریں۔
آل پاکستان بی کیپر ایکسپورٹرز اینڈ ہنی ٹریڈرز ایسوسی ایشن کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کے مطابق پہلے پاکستان سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سمیت دیگر خلیجی ممالک کو سالانہ 600 کنٹینرشہد برآمد کرتا تھا جبکہ ایک کنٹینر میں بیس ہزار کلوگرام شہد ہوتا ہے۔ پاکستان میں شہد کی سالانہ پیداوار 30 سے 35 ہزار ٹن تھا جس میں خیبرپختونخوا کی پیداور بارہ ہزار ٹن تھی تاہم غیرمعمولی بارشوں اور موسمی تغیرات کی وجہ سے اب صرف دو سو سے لے کردو سو پچاس تک کنٹینرز خلیجی ممالک کو برآمد کیا جاتا ہے۔
خیبر پختونخوا چیمبر آف کامرس کی ہنی سٹینڈنگ کمیٹی کے وائس چیئرمین گل بادشاہ کا تعلق قبائلی ضلع باجوڑ سے ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ موسمی تغیرات، غیرمعمولی بارشوں اور حالیہ سیلاب کی وجہ سے شہد کی صنعت کو بہت نقصان پہنچا ہے، جس پھول کی زندگی دو تین مہینوں پر محیط تھی اب وہ ہفتے سے بھی پہلے ختم ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے شہد کی مکھیوں کو خوراک نہیں ملتی اور وہ کم شہد پیدا کرتی ہیں۔ ‘پہلے ہم سات سو کنٹینرز برآمد کرتے تھے اب اس کی تعداد دو سو رہ گئی ہے جس کا ملکی معشیت پر براہ راست اثر پڑا ہے۔’وہ سیلاب کے ساتھ ساتھ خیبر پختونخوا میں موسمی تغیرات، ماحولیاتی آلودگی، درختوں کی بے دریغ کٹائی اور جراثیم کش ادویات کو بھی شہد کی کم پیداوار کی وجوہات قرار دیتے ہیں

مگس بان مجبورا یہ کاروبار چھوڑ رہے ہیں

انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں شہد کی صنعت بڑی مشکل سے دوچار ہے۔ درجنوں تجربہ کار اور برسوں سے اس صنعت سے وابستہ مگس بان مجبورا یہ کاروبار چھوڑ رہے ہیں۔ "ہم حکومتی سطح پر شہد کی پیداوار اور اس کی برآمدگی بڑھانے اور یہاں کا شہد یورپ اور امریکہ کی منڈیوں تک پہنچانے کے لیے پوری کوشش کر رہے ہیں، اس سلسلے میں ہم نے رواں سال مارچ کے مہینے میں پاکستان میں تعینات امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم سے پشاور میں ملاقات بھی کی ہے۔”
گل بادشاہ کے مطابق ڈونلڈ بلوم نے انہیں پاکستانی پیداوار یورپی منڈیوں تک پہنچانے میں ہر ممکن تعاون فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔پرنسپل ریسرچ آفیسر اینڈ پراجیکٹ ڈائریکٹر ہنی خیبر پختونخوا ڈاکٹر محمد یونس بھی شہد کی پیداوار میں کمی کی بنیادی وجہ موسمی تغیرات کو قرار دیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ جس طرح فصلوں اور باغات کو سیلاب میں نقصان پہنچا ہے بالکل اس طرح مگس بانوں کو بھی نقصان پہنچا ہے جس کی بڑی وجہ موسمی تغیرات ہیں۔

شہد کی مکھیاں کیوں سیلاب کی نذر ہوجاتی ہیں؟

انہوں نے کہا کہ شہد کی مکھیاں مختلف علاقوں میں دریاں کے کنارے پڑی ہوتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ سیلاب کی نذر ہو جاتی ہیں۔ ڈاکٹر محمد یونس سمجھتے ہیں کہ خیبر پختونخوا میں مگس بانوں کو جدید تربیت دینے کی ضرورت ہے کہ وہ موسمیاتی تبدیلیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کن علاقوں میں جا سکتے ہیں اور وہ آفات کی صورت میں اپنے آپ کو اور مکھیوں کو کیسے بچا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شہد کی پیداوار کو دوبارہ بڑھانے کے لیے سب نے مل کر موثر اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ شجرکاری کے دوران ان درختوں پر توجہ دینی چاہیے جو شہد کی مکھیوں کے مزاج سے مماثلت رکھتے ہوں اور ضرورت سے زیادہ جراثیم کش ادویات کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔
شہد کی مکھیوں کے عالمی دن پر پاکستان میں شہد کی پیداوار بڑھانے کے حوالے سے چائنا پاکستان ایپی کلچر فورم کا بھی انعقاد کیا گیا تھا، اس موقعے پر چینی سفارتکار پینگ چن سوے نے صحافیوں کو بتایا کہ کہ چینی حکومت شہد کی مکھیوں کے پالنے کی صنعت کو فروغ دینے اور لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے شہد کی مکھیاں پالنے اور شہد کی پروسیسنگ کی جدید ٹیکنالوجی پاکستانیوں کے ساتھ شیئر کرنے پر خوش ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر جدید پیداواری ٹیکنالوجی اور معیاری پیداواری طریقہ کار کو اپنایا جائے تو ملک میں شہد کی پیداوار سالانہ 70,000 ٹن تک بڑھنے اور تقریبا 87,000 سبز ملازمتیں پیدا کرنے کی توقع ہے۔

‘ زیور بیچ کر مگس بانی شروع کی لیکن سیلاب نے سارے خوابوں پر پانی پھیر دیا’

خیبر پختونخوا کے ضلع مالاکنڈ سے تعلق رکھنے والی 35 سالہ نسرین بی بی پانچ بچوں کی ماں ہیں۔ وہ پچھلے سات سالوں سے مگس بانی سے وابستہ ہیں۔ نسرین خان ان 126 متاثرہ مگس بانوں میں سے ایک ہیں جن کے سینکڑوں شہد کی مکھیوں کے پیٹیاں 2022 کے تباہ کن سیلاب میں بہہ گئے ہیں جس سے نہ صرف مگس بانوں کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوا بلکہ شہد کی مجموعی پیداوار اور برآمدگی میں بھی نمایاں کمی آئی ہے۔

کروڑوں کمانے کی بجائے مقروض ہوگئی ہوں: نسرین بی بی

نسرین بی بی نے اپنے تباہ شدہ فارم کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ بچپن سے شہد کی مکھیوں سے لگا تھا اس لیے انہوں نے مگس بانی کی تربیت لی اور پھر اپنا زیور بیچ کر شہد کا کاروبار شروع کیا: ‘میرے 200 سے زیادہ مکھیوں کے بکسے دریائے سوات کے کنارے پڑے تھے کہ اس دوران جولائی 2022 کا سیلاب آیا اور وہ سارے اس کی تیزرفتار موجوں میں بہہ گئے، جس سے میرا تیس لاکھ روپے سے زیادہ کا نقصان ہوا۔’
نسرین کے مطابق اگر ان کے مکھیوں کا فارم سیلاب کی نذر نہ ہوتا تو اس کی پیدوار تین ٹن سے زیادہ ہوتی، ‘آمدن کروڑوں روپے میں ہوتی جس سے زندگی اپنے بچوں کے ہمراہ آرام سے گزر جاتی لیکن اب وہ مقروض ہو چکی ہیں۔ ‘ہماری آمدن کا سارا انحصار شہد کی ان مکھیوں پر تھا، ہم نے بہت کوشش کی لیکن ابھی تک ہمیں کوئی معاوضہ نہیں ملا ہے۔آل پاکستان بی کیپرز ایکسپورٹرز اینڈ ہنی ٹریڈرز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری شیرزمان مہمند کے مطابق انہوں نے دو سو پچاس سے زیادہ خواتین کو مگس بانی کی تربیت دی ہے تاہم حالیہ سیلاب کے بعد خواتین مگس بانوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔

0 کلوگرام شہد پیدا کرنے والی پیٹی اب 5 کلوگرام شہد پیدا کرتی ہے

شیرزمان مہمند آل پاکستان بی کیپرز ایکسپورٹرز اینڈ ہنی ٹریڈرز ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل ہے۔ سیلاب کی وجہ سے شہد کی پیداوار اور برآمد میں کمی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ سیلاب کی وجہ سے اس صنعت کو کافی نقصان پہنچا ہے، سینکڑوں فارمز مکمل تباہ ہوئے ہیں۔ شیرزمان کے مطابق زیادہ تر مکھیاں سیلاب میں بہہ گئی ہیں جبکہ جو بچی ہیں وہ اس قدر متاثر ہوئی ہیں کہ ان میں شہد پیدا کرنے کی صلاحیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ سیلاب سے پہلے ایک پیٹی کی پیداوار 15 سے 20 کلوگرام تھی اب بمشکل 5 سے چھ کلوگرام شہد حاصل ہوتا ہے جس کی وجہ سے سالانہ پیداوار میں نمایاں کمی آئی ہے۔
شیرزمان نے بتایا کہ اس سال کم پیداوار کی وجہ سے یہاں کے ایکسپورٹرز نے باہر کی منڈیوں سے رابطہ ہی نہیں کیا۔ ‘سیلاب کے بعد آنے والا سیزن بیر کے شہد کا تھا جس پر مگس بانوں کا سال بھر کا انحصار ہوتا ہے لیکن مکھیوں کی پیٹیاں سیلاب میں بہہ جانے کے بعد سینکڑوں لوگوں نے مایوس ہو کر اس کاروبار کو خیرباد کہہ دیا ہے۔’

ریلیف پالیسی میں شہد کی مکھیاں رجسٹرڈ نہیں

شیرزمان نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ہم نے متاثرہ مگس بانوں کا ڈیٹا اکٹھا کر کے پی ڈی ایم اے کو بھیجا لیکن ان کا کہنا ہے کہ ریلیف پالیسی میں شہد کی مکھیاں رجسٹرڈ نہیں اس لیے وہ ان کو معاوضہ نہیں دے سکتے۔ شیرزمان نے صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا کہ اس کاروبار سے 16 لاکھ افراد وابستہ ہیں لہذا ان کو فوری طوری پر رجسٹرڈ کریں اور متاثرہ مگس بانوں کے کاروبار کی دوبارہ بحالی میں ان کی مدد کریں۔
آل پاکستان بی کیپر ایکسپورٹرز اینڈ ہنی ٹریڈرز ایسوسی ایشن کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کے مطابق پہلے پاکستان سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سمیت دیگر خلیجی ممالک کو سالانہ 600 کنٹینرشہد برآمد کرتا تھا جبکہ ایک کنٹینر میں بیس ہزار کلوگرام شہد ہوتا ہے۔ پاکستان میں شہد کی سالانہ پیداوار 30 سے 35 ہزار ٹن تھی جس میں خیبرپختونخوا کی پیداور بارہ ہزار ٹن تھی تاہم غیرمعمولی بارشوں اور موسمی تغیرات کی وجہ سے اب صرف دو سو سے لے کردو سو پچاس تک کنٹینرز خلیجی ممالک کو برآمد کیا جاتا ہے۔
خیبر پختونخوا چیمبر آف کامرس کی ہنی سٹینڈنگ کمیٹی کے وائس چیئرمین گل بادشاہ کا تعلق قبائلی ضلع باجوڑ سے ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ موسمی تغیرات، غیرمعمولی بارشوں اور حالیہ سیلاب کی وجہ سے شہد کی صنعت کو بہت نقصان پہنچا ہے، جس پھول کی زندگی دو تین مہینوں پر محیط تھی اب وہ ہفتے سے بھی پہلے ختم ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے شہد کی مکھیوں کو خوراک نہیں ملتی اور وہ کم شہد پیدا کرتی ہیں۔ ‘پہلے ہم سات سو کنٹینرز برآمد کرتے تھے اب اس کی تعداد دو سو رہ گئی ہے جس کا ملکی معشیت پر براہ راست اثر پڑا ہے۔’
وہ سیلاب کے ساتھ ساتھ خیبر پختونخوا میں موسمی تغیرات، ماحولیاتی آلودگی، درختوں کی بے دریغ کٹائی اور جراثیم کش ادویات کو بھی شہد کی کم پیداوار کی وجوہات قرار دیتے ہیں۔

مگس بان مجبورا یہ کاروبار چھوڑ رہے ہیں،

انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں شہد کی صنعت بڑی مشکل سے دوچار ہے۔ درجنوں تجربہ کار اور برسوں سے اس صنعت سے وابستہ مگس بان مجبورا یہ کاروبار چھوڑ رہے ہیں۔ "ہم حکومتی سطح پر شہد کی پیداوار اور اس کی برآمدگی بڑھانے اور یہاں کا شہد یورپ اور امریکہ کی منڈیوں تک پہنچانے کے لیے پوری کوشش کر رہے ہیں، اس سلسلے میں ہم نے رواں سال مارچ کے مہینے میں پاکستان میں تعینات امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم سے پشاور میں ملاقات بھی کی ہے۔” گل بادشاہ کے مطابق ڈونلڈ بلوم نے انہیں پاکستانی پیداوار یورپی منڈیوں تک پہنچانے میں ہر ممکن تعاون فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
آل پاکستان بی کیپرز ایکسپورٹرز اینڈ ہنی ٹریڈرز ایسوسی ایشن کے جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق خیبر پختونخوا میں 70 ہنی بی فارم سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔ پشاور میں 25، مردان میں 6، چارسدہ اور سوات میں چار چار ، بونیر میں 2، وزیر ستان، مہمند ، مانسہرہ اور ہری پور میں شہد کی ایک ایک فارم میں پانی داخل ہوا۔پرنسپل ریسرچ آفیسر اینڈ پراجیکٹ ڈائریکٹر ہنی خیبر پختونخوا ڈاکٹر محمد یونس بھی شہد کی پیداوار میں کمی کی بنیادی وجہ موسمی تغیرات کو قرار دیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ جس طرح فصلوں اور باغات کو سیلاب میں نقصان پہنچا ہے بالکل اس طرح مگس بانوں کو بھی نقصان پہنچا ہے جس کی بڑی وجہ موسمی تغیرات ہیں۔

شہد کی مکھیاں کیوں سیلاب کی نذر ہوجاتی ہیں؟

انہوں نے کہا کہ شہد کی مکھیاں مختلف علاقوں میں دریاں کے کنارے پڑی ہوتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ سیلاب کی نذر ہو جاتی ہیں۔ ڈاکٹر محمد یونس سمجھتے ہیں کہ خیبر پختونخوا میں مگس بانوں کو جدید تربیت دینے کی ضرورت ہے کہ وہ موسمیاتی تبدیلیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کن علاقوں میں جا سکتے ہیں اور وہ آفات کی صورت میں اپنے آپ کو اور مکھیوں کو کیسے بچا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شہد کی پیداوار کو دوبارہ بڑھانے کے لیے سب نے مل کر موثر اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ شجرکاری کے دوران ان درختوں پر توجہ دینی چاہیے جو شہد کی مکھیوں کے مزاج سے مماثلت رکھتے ہوں اور ضرورت سے زیادہ جراثیم کش ادویات کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔
حالیہ سیلاب سے مگس بانوں کے ہونے والے نقصانات اور اس کے ازالے کے حوالے سے جب ہم نے ادارہ برائے آفات پی ڈی ایم اے کے ترجمان تیمور خان سے رابط کیا تو انہوں نے بتایا کہ خیبر پختونخوا میں قدرتی آفات سے متاثرہ افراد کو معاوضہ پی ڈی ایم اے ریلیف ریگولیشن کے تحت دیا جاتا ہے جس میں مالی و جانی نقصانات کی ادائیگی کے حوالے سے تمام تفصیلات موجود ہے۔ ان میں فصل، باغات، تعمیرات سمیت مختلف قسم کے جانور شامل ہے لیکن ریلیف ریگولیشن میں شہد کی مکھیوں کا کوئی ذکر موجود نہیں اس وجہ سے ان کی نقصان کا تاحال ازالہ نہ ہو سکا
شہد کی مکھیوں کے عالمی دن پر پاکستان میں شہد کی پیداوار بڑھانے کے حوالے سے چائنا پاکستان ایپی کلچر فورم کا بھی انعقاد کیا گیا تھا، اس موقعے پر چینی سفارتکار پینگ چن سوے نے صحافیوں کو بتایا کہ کہ چینی حکومت شہد کی مکھیوں کے پالنے کی صنعت کو فروغ دینے اور لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے شہد کی مکھیاں پالنے اور شہد کی پروسیسنگ کی جدید ٹیکنالوجی پاکستانیوں کے ساتھ شیئر کرنے پر خوش ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر جدید پیداواری ٹیکنالوجی اور معیاری پیداواری طریقہ کار کو اپنایا جائے تو ملک میں شہد کی پیداوار سالانہ 70,000 ٹن تک بڑھنے اور تقریبا 87,000 سبز ملازمتیں پیدا کرنے کی توقع ہے۔