2 182

عوام کیلئے آن لائن خدمات فراہمی کی سہولت

کورونا وائرس کے باعث جب لوگ گھروں تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں تو ٹیکنالوجی کی ضرورت اور استعمال میں مزید اضافہ ہو گیا ہے ‘ اگرچہ دنیا کے کئی ممالک میں ایک عرصے سے آن لائن سسٹم رواج پکڑ چکا ہے لیکن پاکستان میں بھی اب اس کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ‘ لاک ڈائون نے ہمیں احساس دلایا ہے کہ گھر میں بیٹھ کر بھی امور کو انجام دیا جا سکتا ہے ‘ سو حکومتی سطح پر بھی اس کا ادراک کیا جا رہا ہے ‘ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے صوبائی حکومت کے ڈیجیٹل ایکسیس پروگرام کے تحت صوبائی دارالحکومت میں سٹیزن فیسلی ٹیشن سنٹرز کے قیام کے منصوبے کو جلد مکمل کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کے حکام کو ہدایت کی ہے کہ شہریوں کی آسانی کیلئے ڈرائیونگ لائسنس ‘ اسلحہ لائسنس ‘ ڈومیسائل سرٹیفکیٹ ‘ قومی شناختی کارڈ اور زمین کے انتقالات وغیرہ کے آن لائن اجراء کو ایک چھت تلے یکجا کرنے کیلئے قابل عمل تجاویز پیش کی جائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ شہریوں کو ڈرائیونگ لائسنس ‘ ڈومیسائل سرٹیفکیٹ اور زمین کے انتقالات کیلئے کئی کئی دن تک سرکاری دفاتر کے چکر لگانے پڑتے ہیں’ زحمت سے بچنے کیلئے متعدد لوگ ایجنٹس کی خدمات لینے پر مجبور ہوتے ہیں جو عوام سے اصل فیس کے علاوہ کئی گنا اضافی رقم وصول کرتے ہیں اور جلد کام کروانے کیلئے کلرکس کی مٹھی بھی گرم کرتے ہیں یوں کرپشن کا ایک راستہ نکلتا ہے ‘ جب کہ جو لوگ ایجنٹس کو رقم دینے کی استطاعت نہیں رکھتے انہیں طویل انتظار اور مشقت سے گزرنا پڑتا ہے۔ ایسے حالات میں اگر صوبائی حکومت کی طرف سے شہریوں کو آن لائن خدمات کی فراہمی کی سہولت میسر آتی ہے تو شہریوں کے وقت کے ضیاع کو روکنے کے ساتھ ساتھ شفافیت کو بھی برقرار رکھا جا سکتا ہے ‘ مزید یہ کہ آن لائن سسٹم ہونے کی وجہ سے پینڈنگ کاموں کے حجم کو بھی کم کیا جا سکتا ہے ‘ اس لئے صوبائی حکومت کے اس اقدام کی تحسین کی جانی چاہیے اور توقع کی جانی چاہیے کہ شہریوں کو آن لائن خدمات کی فراہمی کے منصوبے کو جلد حتمی شکل دی جائے گی۔
یکساں تعلیمی پالیسی کی ضرورت
کورونا کے باعث موجودہ صورتحال کے پیش نظر وفاقی حکومت نے امسال میٹرک اور انٹر امتحانات نہ لینے کا عندیہ دیا جب کہ آل پاکستان تعلیمی بورڈز نے میٹرک اور انٹر امتحانات کے انعقاد کیلئے تیاریاں شروع کر نے کی ہدایت اور ملک بھر میں میٹرک اور انٹر امتحانات ماہ جون میں منعقد کرانے کی منصوبہ بندی کر دی ‘ اس طرح وفاق او رصوبائی سطح پر الگ الگ پالیسی کی وجہ سے محکمہ تعلیم اور والدین کے درمیان ابہام پایا جاتا ہے ۔ اس ابہام کو دور کرنے کیلئے پہلی بات تو یہ ہے کہ آل پاکستان تعلیمی بورڈز کمیٹی کا فیصلہ پہلے کیا گیا جب کہ وفاقی وزیر تعلیم کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں امسال بورڈز کے امتحانات نہ لینے کا فیصلہ بعد میں کیا گیا’ اس تناظر میں وفاقی وزیر تعلیم کے فیصلے کو ہی حتمی سمجھا جانا چاہئے جس میں سابق تعلیمی ریکارڈ کی بنیاد پر تمام طلباء و طالبات کو اپ گریڈ کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے عوام کی بڑی تعداد کو معلوم نہیں ہوتا کہ آل پاکستان تعلیمی بورڈز کا اعلان کب ہوا اور وفاقی وزیر نے کب فیصلہ کیا اور کس کے فیصلے کو حتمی سمجھا جائے چونکہ طلباء کے تعلیمی مستقبل کا معاملہ ہے اس لئے ضروری ہے کہ محکمہ تعلیم کی طرف سے اس ابہام کو تشہیری مہم کے ذریعے دور کیا جائے تاکہ طلباء ایک سمت کا تعین کر کے یکسوئی کیساتھ تیاری شروع کر دیں اور اگر آل پاکستان تعلیمی بورڈز کے وفاقی وزیر تعلیم کیساتھ اندرون خانہ کچھ معاملات چل رہے ہیں جس میں وفاقی حکومت کے فیصلے کیساتھ اتفاق نہ کرنے کے اشارے سامنے آ رہے ہیں تو اس حوالے سے بھی واضح پالیسی کا اعلان کیا جائے ‘ کیونکہ طلباء کا پہلے ہی بہت نقصان ہو چکا ہے’ اس سلسلے میں تاخیر مزید نقصان کا موجب ہو گی۔
عوام سستے تیل کی سہولت سے محروم کیوں؟
کورونا کی وجہ سے تیل کی عالمی مارکیٹ میں قیمتوں میں نمایاں کمی ہوئی تو پاکستان میں بھی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کیا گیا’ 114روپے لیٹر میں فروخت ہونے والا پیٹرول کمی کے بعد 81روپے لیٹر ہو گیا لیکن پشاور سمیت کئی علاقوںمیں پیٹرول پمپ مالکان اس فیصلے پر عمل درآمد سے گریزاں ہیں’ پیٹرول پمپ مالکان کی طرف سے مؤقف اختیار کیا جا رہا ہے کہ خسارے سے بچنے کیلئے انہوں نے پیٹرول کی سیل روکی ہے حالانکہ پیٹرول پمپ مالکان کے اس مؤقف میں کوئی صداقت نہیں کیونکہ جب حکومت کی طرف سے پیٹرولیم مصنوعات کو کم کیا جاتا ہے تو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہوتا ہے کہ قیمتوں میں کمی کا سارا بوجھ پیٹرول پمپ مالکان پر ڈال دیا جائے بلکہ ایک طے شدہ فارمولے کے تحت قیمتوں میں کمی کا اعلان کیا جاتا ہے جس میں پیٹرول پمپ مالکان کا ایک روپے کا نقصان بھی نہیں ہوتا ‘ اب سوال یہ ہے کہ اگر پیٹرول پمپ مالکان کا کوئی نقصان نہیں ہے تو وہ خسارے کا کیوں کہہ رہے ہیں اور پیٹرول کی سیل کیوں روکے ہوئے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ پیٹرول پمپ مالکان میں سے بعض پیٹرول مالکان پیٹرول کا وافر ذخیرہ کر لیتے ہیں اور پیٹرول مہنگا ہونے کی صورت میں اس ذخیرہ شدہ پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کر کے خوب کماتے ہیں ‘ اب کی بار چونکہ پیٹرول سستا ہوا ہے تو انہیں ذخیرہ شدہ پیٹرول میں معمولی خسارے کا سامنا ہے ۔ ان حالات میں انتظامیہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ شہریوںکو پیٹرول پمپ مالکان کے رحم و کرم پر نہ چھوڑے اور اعلان کردہ ریلیف کے مطابق عوام کو مستفید کرنے کیلئے تمام وسائل بروئے کار لا کر حکومتی فیصلے پر عمل درآمد کو یقینی بنائے۔

مزید پڑھیں:  میزائل' امریکی پابندی اور وزارت خارجہ