سیدنا علی ابن طالب بیان کرتے ہیں کہ حضرت دانیال کو بخت نصر بادشاہ کے پاس لایا گیا ۔ بخت نصر نے انہیں مارنے کے لیے دو بھوکے شیروں کے ساتھ بند کر دیا ۔ پانچ دن بعد ان لوگوں نے قید خانے کا دروازہ کھولا ، اس امید پر کہ شیروں نے ان کی تکہ بوٹی کر ڈالی ہوگی ۔ انہیں یہ دیکھ کر انتہائی تعجب ہو ا کہ حضرت دانیا ل کھڑے نماز پڑھ رہے تھے اور دونوں شیر قید خانے میں ایک جانب بیٹھے تھے ، جیسے ان کی رکھوالی کر رہے ہوں ۔ بخت نصرا صرار کرنے لگا: آپ مجھے بتائیں کہ آپ نے کیا پڑھا کہ ان بھوکے خونخوار شیروں نے آپ کا کچھ نہیں بگاڑا؟ حضرت دانیا ل نے بتایا کہ میں نے کہا تھا : ترجمعہ :”تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جو اپنے یاد کرنے والے کو کبھی نہیں بھولتا ۔ تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس سے امید لگانے والا کبھی نامراد نہیں ہوتا ۔ تمام تعریفیں اس اللہ کیلئے ہیں جو اپنے بھروسہ کرنے والے کے بھروسے کو کبھی نہیں توڑتا۔ تمام تعریفیں اس ا للہ کے لیے ہیں کہ جب سارے دنیاوی سہارے ختم ہو جاتے ہیں تو اسی کا سہار ا باقی ہوتا ہے ، تمام تعریفیں اس اللہ کیلئے ہیں کہ جب ہم اپنے اعمال کو دیکھتے ہیں تو اس کی رحمت کی ہی امید ہوتی ہے ۔ تمام تعریفیں اس اللہ کیلئے ہیں جو ہماری مصیبتوں کو دور کرتا ہے ۔ تمام تعریفیں اس اللہ کیلئے ہیں جو احسان کا بدلہ احسان سے دیتا ہے ۔ تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں ، جو صبر کرنے پر نجات دیتا ہے ۔ ”
(ردالبلا ء بالد عاء ص :95,96)
یہ 1422ہجری کی بات ہے ،حرم شریف میں ایک شخص نے شیخ سے سوال کیا کہ جب میں نے شادی کا ارادہ کیا تو میرا اپنی والد ہ سے اختلا ف ہوگیا ، والدہ ناراض ہو کر کہنے لگیں : اللہ کرے تمہیں اس شادی سے خوشیا ں نصیب نہ ہوں ۔ واقعی شیخ صاحب ! جب سے میں نے شادی کی ہے مجھے سعادت اور خوشی نصیب نہیں ہوئی ، میں نے شادی کے بعد اپنی والد ہ کو راضی بھی کرلیا تھا ، شیخ حرم نے جو جواب دیا ، اس کامفہوم یہ تھا کہ تمہاری والدہ کی بد دعا کے بعد اس کی رضا مندی اس کی پہلی بد دعا کو واپس نہیں لوٹا سکتی ۔ اس لیے ! کسی صورت میں والدہ کو ناراض نہیںکرنا چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ ان کی زبان سے آ پ کیلئے کبھی بھی بد دعا نہ نکلے ۔ والدین کی دعا کو اولاد کے حق میںرب تعالیٰ قبول فرماتے ہیں ۔ حضرت ابو الحسن علی بن عبداللہ ہاشمی سے روایت ہے کہ میںبلا دہند گیا تو میں نے ایک گائوں میں سیاہ رنگ کے پھولوں کاایک درخت دیکھا ۔ وہ سیاہ پھول ایک بڑے پھول میں کھلتا تھا ، نہایت پاکیزہ خوشبو ، اس کی پنکھڑیوں کا رنگ سیاہ تھا اور ان پتیوں پر سفید حروف میں کلمہ طیبہ اورا بوبکر صدیق عمر فاروق لکھا ہواتھا ۔ مجھے شبہ ہوا اور میں نے گمان کیا کہ شایدیہ پھول مصنوعی ہے ۔ اس کے بعد میری نظر ایک اور کلی پر پڑی ، میں نے ہاتھ سے اسے کھولا تو دیکھا اس میں بھی ویسا ہی لکھا ہوا تھا ، اس بستی میں ایسے پھول بکثرت تھے ، حالانکہ اس بستی کے باشندے بت پرست تھے ، وہ خدا تعالیٰ کو جانتے بھی نہیں تھے ۔
Load/Hide Comments