4 84

جناب محمود خان’ فنکار توجہ چاہتے ہیں

مشیر اطلاعات خیبر پختونخوا اجمل خان وزیر نے عجیب منطق گھڑی ہے اور لاک ڈاؤن کھولنے کے حوالے سے دو شرائط عائد کی ہیں یعنی ایک تو یہ خوشخبری سنا دی ہے کہ تاجروں نے تعاون کیا تو کاروبار پانچ دن بھی کھول سکتے ہیں، گویا حاتم طائی کی قبر پر لات رسید کرتے ہوئے کاروباری سرگرمیوں میں ایک روز کا مزید اضافہ کر سکتے ہیں جسے خوش آئند قرار دینے میں بھلا کیا عذر ہو سکتا ہے کہ تازہ ہوا کا جھونکا کسے اچھا نہیں لگتا۔ مگر ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ جو دکاندار حکومت کے حفاظتی اقدامات پر عمل درآمد نہیں کرے گا تو فوری طور پر ان کا کاروبار بند کروا دیا جائے گا۔ ایک تیسری بات بھی انہوں نے ضرور کی ہے جو اصل مسئلے کی کلید ہے یعنی لاک ڈاؤن میں نرمی حکومت کیساتھ ساتھ عوام کی بھی آزمائش ہے’ ایس او پیز پر عمل میں کوتاہی برداشت نہیں اور یہی وہ نقطہ ہے جس کے اندر اس تمام مسئلے کا حل جڑا ہوا ہے۔ اس ضمن میں ایک اور اہم خبر پر توجہ دینا ضروری ہے وہ یہ کہ لاک ڈاؤن ختم ہوتے ہی بازاروں میں خواتین خریداروں کا رش اُمڈ آنے کیساتھ جیب تراشوں اور گداگروں کا جم غفیر بھی لگ گیا ہے۔ ایسی صورت میں جب معاملہ کھوے کیساتھ کھوا چھلنے تک جا پہنچا ہے یعنی اتنی رش لگ گئی ہے کہ لوگوں کے کندھے ایک دوسرے سے ٹکرا رہے ہوں تو بے چارے دکاندار کس کس کو منع کر سکیں گے کہ ان کی دکانوں پر رش نہ بنائیں’ قطاروں میں مناسب فاصلے سے رہیں اور باری باری سودا خریدنے کے عمل میں تعاون کریں’ گویا ”دکان کے پنجرے میں قید” مالک دکان خود بھی ”شیر یعنی گاہک” ہی کے رحم وکرم پر ہوتا ہے اور اس کیلئے صورتحال نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن والی بن رہی ہوتی ہے۔ گاہک کو منع کرنا ہے تو وہ ناراض ہو کر اگلی دکان کی راہ لیتا ہے’ منع نہیں کرتا تو حکومت کے ایس او پیز کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو کر دکان سیل کروا لیتا ہے’ اوپر سے پولیس والوں کا ناروا رویہ دکاندار اور گاہک دونوں کو مشکلوں میں ڈالنے کا باعث بن رہا ہے۔ پولیس والوں کو تو ایسے مواقع اللہ ہی دے جب وہ شریف شہریوں کو بلاوجہ ڈنڈے برسا کر یا مرغا بنا کر اپنی انا کو تسکین پہنچانے کا باعث بنیں۔ یہ ہجوم جو بوجوہ شہروں’ بازاروں’ گلیوں میں اُمڈ آیا ہے یا لاک ڈاؤن کے خاتمے کی وجہ سے اب ہر جانب نظر آئے گا ان کے بارے میں یہی پیشگوئی کی جاسکتی ہے کہ بقول عابد ملک
ہزار طعنے سنے گا خجل نہیں ہوگا
یہ وہ ہجوم ہے جو مشتعل نہیں ہوگا
ان میں خصوصاً بے چارے ان دیہاڑی داروں کی بھرمار ہے جن تک یا تو ابھی تک سرکاری سطح پر امداد نہیں پہنچائی جاسکی’ وجہ کچھ بھی رہی ہو یا پھر نجی امدادی اداروں نے بہ مشکل ان کو راشن فراہم کیا ہے اور یہ بے چارے بیروزگاری کے عفریت سے لڑتے لڑتے بھی عاجز آچکے ہیں’ ان کے علاوہ ایک اہم طبقہ وہ بھی ہے جو بیروزگاری اور بھوک سے نبردآزما ہو کر بھی کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی ہمت نہیں رکھتا۔ انہیں اپنی عزت نفس یہ کام نہیں کرنے دیتی مگر ان کی حالت دیدنی ہے’ ان کی پہنچ صرف سرکاری اداروں تک ہی محدود ہے مثلاً گزشتہ بدھ کے روز پنجاب سے اس حوالے سے تازہ ہوا کا ایک جھونکا یوں آیا کہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے اپنے صوبے کے مستحق تین ہزار فنکاروں کو 15ہزار سے 20ہزار روپے امداد کا اعلان کرکے ان کی دادرسی کی کوشش کی ہے جبکہ ہمارے ہاں خیبر پختونخوا کے فنکاروں کی بار بار توجہ دلانے پر بھی کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی حالانکہ پنجاب میں پرائیویٹ ٹی وی چینلز ان میں سے اکثر فنکاروں کی اپنے مزاحیہ پروگراموں کے ذریعے حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور ہر ہفتے معقول معاوضے ادا کرکے ان سے ریکارڈنگ کرواتے ہیں البتہ سٹیج ڈراموں پر وہاں بھی پابندی ہے یعنی وہاں بھی فنکار اگرچہ بیروزگار ضرور ہیں مگر صرف چھوٹے شہروں کے فنکار امداد کے مستحق ہیں ایسی صورت میں حکومت پنجاب اگر ان کی مدد کو آگے آگئی ہے تو صوبہ خیبر پختونخوا کے فنکاروں کی مالی حالت اس قدر دگرگوں ہے کہ ان کے گھروں میں فاقے اگ رہے ہیں یہاں نہ تو ٹی وی پر کوئی کام ہے نہ سٹیج پر اور نہ ہی دیگر نجی سطح پر’ ابھی چند روز پہلے ملک کے کسی صاحب حیثیت شخص تک نہ جانے کس طرح ان فنکاروں کی بے بسی کی اطلاع پہنچائی گئی جنہوں نے شنید ہے کہ لاکھوں روپے کا پیکج دیا مگر بعض اطلاعات کے مطابق یہ سارا پراسیس کسی ایسے شخص کے ذریعے مکمل کروایا گیا جس نے مبینہ طور پر پورے معاملے میں ڈنڈی ماری اور بعض ایسے غیرمستحق لوگوں کو بھی امدادی رقوم کے چیک دلوائے جو موجودہ صورتحال میں بھی گریڈ 17 سے 19 تک کے حاضر سروس ملازم ہیں اور اس امداد کے ہرگز مستحق نہیں ہیں۔ اگر تو یہ سچ ہے تو رقوم لینے والوں کو شرم آنی چاہئے کہ حقداروں کا حق مار کر اور معقول تنخواہیں لیکر بھی زکواة کی رقم کیلئے ہاتھ کیوں پھیلا رہے ہیں۔ اگر ان میں ذرا بھی عزت نفس ہو تو یہ رقوم واپس کرکے اصل حقدار فنکاروں کو اس سے استفادہ کرنے کا موقع دینا چاہئے۔ ہاں وزیراعلیٰ محمود خان سے گزارش ہے کہ وہ مقامی فنکاروں کیلئے امدادی پیکج کا جلد سے جلد اعلان کرکے ان کو مشکل سے نکالنے میں مدد کریں۔
یہی تو وقت ہے آگے بڑھو خدا کے لئے
کھڑے رہوگے کہاں تک تماشبینوں میں

مزید پڑھیں:  قول وفعل کا تضاد