2 184

کورونا سے بچنے کا واحد طریقہ احتیاط اور احتیاط

لاک ڈاؤن میں نرمی اور سمارٹ لاک ڈاؤن کی اصطلاح اختیار کرنے کی حکومت کی اپنی مصلحت ہو سکتی ہے لیکن عملی طور پر صورتحال اب قابو سے باہر ہوتی جارہی ہے اور اس وقت وائرس کے پھیلاؤ کا عمل تیزی سے عروج کی طرف جارہا ہے۔ خیبر پختونخوا میں پہلے ہی ٹیسٹنگ کی تعداد اور سہولیات نہ ہونے کے برابر تھی اب صوبے کی واحد مستند لیبارٹری جو خیبر میڈیکل یونیورسٹی میں قائم ہے اسے بھی بند کیا جارہا ہے۔ ایک معروف انگریزی اخبار کے ویب سائٹ کے مطابق کے ایم یو کی پبلک ہیلتھ ریفرنس لیبارٹری میں تربیت یافتہ عملے کے فقدان کے باعث پندرہ مئی سے کورونا وائرس کے ٹیسٹ بند کر دیئے جائیں گے۔ خیبر میڈیکل یونیورسٹی لیب کے پانچ ملازمین میں کورونا وائرس سے متاثر ہونے کے بعد ٹیسٹ کا سلسلہ بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ حیران کن امر یہ ہے کہ لیبارٹری میں تربیت یافتہ ماہرعملہ تعینات نہ تھا، عملے کے افراد کی بڑے پیمانے پر وائرس کا شکار ہونے کی بڑی وجہ ناتجربہ کاری تھی۔ وائس چانسلر کے نام خط میں اس کو بند کرنے کے نوٹس کیساتھ توجہ دلائی گئی ہے کہ پی ایچ آر ایل خیبر پختونخوا حکومت کا ایک آزاد ادارہ ہے اور کے ایم یو میں اس کے قیام کے بعد ماہر عملے کو 2017ء سے اب تک تعینات کر دینا چاہئے تھا۔ دوسری جانب پہلے سے تحفظات اور خدشات کے باعث سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کو لانے میں لوگوں کی ہچکچاہٹ اب عملی صورت میں اس طرح سامنے آرہی ہے کہ کسی مریض کو سرکاری ہسپتال لانے کا مطلب یقینی موت ہے۔ کئی مریضوںکا دن کے آغاز پر اپنے پاؤں چل کر ہسپتال داخل ہونے اور شام تک ان کی موت کی کہانیاں اب محض کہانیاں نہیں رہیں۔ سرکاری ہسپتالوں میں علے کے تحفظ کے سامان کی قلت ہی نہیں ہسپتال کا عملہ بھی مریضوں کے قریب جانے سے خوفزدہ ہو چکا ہے۔ صوبے کے سب سے بڑے تدریسی ہسپتال لیڈی ریڈنگ اموات کے ریکارڈ میں سرفہرست ہے اس سے آئی سی یو میں داخل مریضوں کی حالت زار کی جو داستانیں بیان کی جارہی ہیں ان کا یہاں ذکر اس لئے نہیں کیا جارہا کہ لوگوں کا رہا سہا اعتبار اور اُمید بھی دم نہ توڑ جائے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ زیادہ دن نہیں لگیں گے کہ ہسپتال کے عملے ہی کا کوئی فرد اور ڈاکٹر بھانڈا پھوڑ دے۔ صرف پاکستان اور خیبر پختونخوا ہی میں کورونا وائرس کی ہلاکت خیزیوں میں اضافہ نہیں ہو رہا ہے عالمی سطح پر بھی کورونا کے ایک اور لہر آنے کے خدشات ظاہر کئے جارہے ہیں اور دنیا میں کورونا کے کیسز کی تعداد اکتالیس لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے، علاج عالجے کی تیاریوں اور اقدامات کی صورتحال یہ ہے کہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق کورونا وائرس کی ویکسین2021ء تک تیار نہیں ہو سکتی ستم بالائے ستم یہ کہ کورونا کے مریضوں کا تجزیہ کرنے کے بعد ہارورڈ میڈیکل سکول نے کووڈ انیس کی نئی نشانیوں کی فہرست مرتب کی ہے اس حساب سے دیکھا جائے تو ابھی تک علامات اور علاج دونوں حوالے سے دنیا لاعلم اور اندھیرے میں ہے۔ ان حالات میں بھی صرف یہ فرض کر کے لاک ڈاؤن کھولا جا رہا ہے کہ پاکستان میں کورونا وائرس کا پھیلاؤ دنیا کے دیگر ممالک کی نسبت کم ہے۔ اس دعویٰ کا کوئی ثبوت نہیں دنیا کے ممالک میں ٹیسٹ کی شرح کیساتھ اس میں کمی بیشی کے اعداد وشمار اور اندازے دئیے گئے، ہمارے ہاں ٹیسٹ کی سہولت اور معیار دونوں ہی ناقص اور ناقابل اعتبار ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ کورونا وائرس کی تباہ کاریوں میں لاک ڈاؤن میں نرمی کیساتھ اچانک اضافہ ہوگیا ہے اور ابھی اس کے مزید اثرات کا خدشہ ہے۔ اس وقت اہم سوال یہ ہے کہ ملک میں لاک ڈاؤن میں نرمی اس وقت کرنے کے پیچھے کیا حکمت عملی تھی جب وباء میں تیزی آرہی ہے، ایسے حالات میں پابندیوں میں نرمی اور بازار کھول دینا بہت حساس فیصلہ بلکہ جوا ہے، اس کے نتائج کا انحصار اس دوران عوام اور حکومتی مشینری کے رویئے پر ہوگا، اب تک کی صورتحال میں دونوں ہی ناکام اور آگے بھی خیر کی کوئی توقع مشکل ہے، کاروبار احتیاط کے تقاضوں کے مطابق یقینی بنانے کا کوئی انتظام اور تعاون واحتیاط کا کوئی جذبہ دکھائی نہیں دیتا بلکہ صورتحال اس کے برعکس اور اُلٹ ہی ہے۔ اب حالات کے تناظر میں بہتر مشورہ یہی ہوسکتا ہے کہ لوگ خود ہی احتیاط کریں اور جن لوگوں کی بے احتیاطی ولاپرواہی اور جان بوجھ کر احتیاطی تدابیر اختیار نہ کرنے اور حکومت کی پابندی کروانے میں ناکامی کے بعد لوگ خود ہی اس طرح کے لوگوں سے حتی المقدور دور رہیں جس جس کو موقع میسر ہے وہ خود کو رضاکارانہ طور پر قرنطینہ میں رکھے، یہاں تک کہ دوست احباب اور رشتہ داروں سے بھی فون پر ہی رابطہ رکھیں۔ تاجر برادری کے اصرار پر بازار کھل گئے ہیں تو خود اپنے اور دوسروں کے تحفظ کی خاطر جتنا ممکن ہو سکے احتیاطی تدابیر اختیار کریں اور دوسروں کو بھی ترغیب دیں۔ عالمی برادری کورونا وائرس کے سامنے بے بس ہوچکی ہے، علامات کا درست علم نہیں، علاج ابھی تک دریافت نہیں ہو چکا ہے ایسے میں باقی بچتا ہے احتیاط اور صرف احتیاط۔

مزید پڑھیں:  مال مفت دل بے رحم ؟