1 130

لاک ڈاؤن کی قید سے رہائی کے بعد۔۔؟

کورونا وائرس کے معاملے پر بلائے گئے قومی اسمبلی کے خصوصی اجلاس میںوفاقی وزیر مراد سعید نے انکشاف کیا کہ نیویارک کورونا سے بچائو کیلئے ہماری پیروی کر رہا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی خوب گرجے برسے اور پیپلزپارٹی پر الزام لگایا کہ ”وہ سندھ کارڈ کھیل رہی ہے، پرجوش انداز میں ہمارے ملتانی مخدوم نے کہا اب صرف پاکستان کارڈ چلے گا”۔ پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو کا کہنا تھا ”وزیراعظم اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر رہے، وفاقی حکومت کنفیوژ ہے۔ تحریک انصاف کے وزراء اور رہنما سندھ حکومت پر حملہ آور ہیں”۔ مسلم لیگ ن کے خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ اٹھارہویں ترمیم کو نہ چھیڑا جائے، انہوں نے وزیرخارجہ کی جانب سے پی پی پی پر سندھ کارڈ استعمال کرنے کے الزام پر افسوس کا اظہار کیا۔ اہم نوعیت کے اس اجلاس میں وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر شریک نہیں ہوئے۔ وزیراعظم کی عدم شرکت کی وجہ ان کی مصروفیات بتائی گئیں جبکہ یہ اطلاع ہے کہ نون لیگ کے سینئر قائدین نے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو حکمت عملی کے تحت اجلاس میں شرکت سے روکا، نون لیگ کا مؤقف ہے کہ اگر وزیراعظم قومی اسمبلی کے اجلاس میں شریک نہیں ہوئے تو اپوزیشن لیڈر کو بھی اجلاس میں نہیں جانا چاہئے جبکہ ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ شہباز شریف کو ان کے معالجین نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت سے روکا۔ سوموار کا اجلاس الزامات تھے، طنز کے نشتر۔ یہ دعوی کہ اگر لاک ڈاؤن کی مدت بڑھاتے تو 9 لاکھ کاروبار مکمل طور پر ختم ہوجاتے۔ وزیراعظم جو وفاقی وزیرصحت بھی ہیں کو اجلاس میں ساری مصروفیات چھوڑ کر شرکت کرنی چاہئے تھی۔ پچھلے ادوار میں بھی جب وہ رکن قومی اسمبلی تھے اجلاسوں میں شرکت کو وقت کا ضیاع سمجھتے کہتے تھے، ان کی مستقل مزاجی سے آگاہ لوگوں کا خیال ہے کہ اب بھی ان کی رائے وہی ہے۔ کورونا وائرس کے آغاز سے ہی وفاق اور صوبے منتخب اداروں کی بجائے انتظامی بنیادوں پر فیصلہ کر رہے ہیں، ان فیصلوں سے حاصل وصول کیا ہوا اور کیوں ملک گیر ہم آہنگی پیدا نہیں ہوپائی ان دو باتوں پر بحث اُٹھانے کی ضرورت نہیں، البتہ یہ خوش آئند بات ہے کہ وفاقی وزیر اسد عمر نے اپنی ہی جماعت کے کراچی سے تعلق رکھنے والے بعض رہنماؤں کی سندھ حکومت اور خصوصاً وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ بارے زبان دانیوں سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے دو ٹوک انداز میں کہا وزیراعلیٰ سندھ نے ہر قدم پر وفاق سے تعاون کیا۔
ملتانی مخدوم اپنی تقریر کے دوران اتنے جذباتی کیوں تھے یہ سمجھ میں نہ آنے والی بات نہیں، پچھلے دو سو سال کی تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیجئے ان کا خاندان ”حکومتوں سے تعاون اور خدمت خلق” میں ہمیشہ پرجوش رہا۔ 1859ء کی جنگ آزادی کے موقع پر بھی بڑے مخدوم شاہ محمود قریشی اول اسی طرح ہندوستانی کارڈ کھیلے جانے کے مخالف تھے اور آپ نے ملتان میں جنگ آزادی معاف کیجئے گا ”غدر” کے حامیوں کی سرکوبی کیلئے تاریخی خدمات سرانجام دیکر اعزازی مجسٹریٹ کا منصب حاصل کیا۔ 500روپے نقد اور ملتان ولاہور میں اراضی الگ انعام میں حاصل کی، اس سے قبل رنجیت سنگھ کے حملہ ملتان کے وقت یا شہید احمد خان کھرل کی بغاوت کے دوران بھی ہمارے ملتانی مخدوم شاہ محمود قریشی کے خاندان نے وقت کا ساتھ نبھایا اور فیض پایا۔ خیر چھوڑیں، اقتدار کی گلی میں قریشی، ٹوانے، عباسی، گیلانی، کھچی، دولتانے، کھگے، جاموٹ، سردار وتمن دار، خان وچودھری سب قربان ہوئے یہی ہماری تاریخ ہے۔ تاریخ میں کیا رکھا ہے، ہم حال کی بات کر لیتے ہیں لاک ڈاؤن نرم ہوگیا، اتنا نرم کہ بازاروں میں تل رکھنے کی جگہ نہیں، دکانوں پر خریداروں کا ہجوم ہے، سڑکوں پر ٹریفک، کراچی کے تاجروں کے الائنس کے سربراہ عتیق میر سے ایک صحافی نے سوال کیا ”تاجروں نے حکومت سے طے پانے والے ایس او پیز پر عمل کیوں نہیں کیا؟ تاجر رہنما نے بلاجھجھک کہا، ایس او پیز پر عمل ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ سوال کرنے والے صحافی کی آنکھوں میں حیرانی دیکھ کر وہ بولے! آپ کبھی دعوت ولیمہ میں گئے ہیں۔ جی، جواب ملا۔ بولے ولیمہ میں جب روٹی کھل گئی ہے کا اعلان ہوتا ہے تو کیسی بھگدڑ مچتی ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ لاک ڈاؤن روٹی کھل گئی ہے کا اعلان اور ایس او پیز پر عدم عمل وہ بھگدڑ ہے اب کورونا جانے اور کورونا ہی جانے، باقی اللہ رحم فرمائے۔ ہمزاد فقیر راحموں ناراض ہیں، کہتے ہیں یار شاہ جی! تم بلاوجہ حکومتوں پر تنقید کرتے رہتے ہو۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے جو بھی بس میں تھا وہ انہوں نے کیا۔ کاروباری طبقے کی ”لوٹ سیل” کا مقدس مہینہ ہاتھ سے نکلا جا رہا تھا، اب اگر لوگ خود ہی ”آ کورونا مجھے مار” کے شوق میں مبتلا ہیں تو حکومتیں کیا کر سکتی ہیں۔ بات ہمزاد کی درست ہے، کل ملک کے درجنوں چھوٹے بڑے شہروں میں ٹریفک جام اور بازاروں میں خریداروں کا ہجوم تھا اور اس وقت صورت یہ ہے کہ کورونا کے مریضوں کی مجموعی تعداد 31300 سے بڑھ گئی ہے۔ اموات 678ہیں، صرف دو دن میں (لاک ڈاؤن کھلنے کے بعد) 4322 مریض بڑھے ہیں، شہریوں نے خود سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا تو خطرہ ہے کہ 25مئی تک یہ تعداد 50ہزار سے تجاوز کر جائے گی۔ ہم ان سطور میں روزانہ وفاقی وصوبائی حکومتوں کی خبرگیری کرتے ہیں لیکن یہ اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ ہمارے لوگ بھی الحمداللہ پیدائشی غیرسنجیدہ ہیں۔ ٹوٹکے بازی پر یقین رکھنے والا ہجوم جس کی غالب اکثریت اب بھی کورونا کو وبا سے زیادہ صرف حکومتوں کا مال بنانے کیلئے پروپیگنڈہ سمجھتی ہو اس ہجوم سے نظم وضبط، احساس ذمہ داری کی توقع عبث ہے۔ پچھلے دو تین دنوں کے دوران کورونا کے مریضوں کی تعداد جس تیزی سے بڑھی اس پر سنجیدہ فہم شہری اور طبی ماہرین کیساتھ حکومتی حلقے بھی پریشان ہیں۔ بس ٹوٹکے بازوں اور لال حویلی والے شیخ رشید کو کوئی فکر نہیں۔ ٹوٹکے بازوں کی ذہنیت سے آپ واقف ہی ہیں، شیخ رشید کو دکھ ہے کہ ریلوے کو پانچ ارب روپے ماہانہ کا نقصان ہو رہا ہے۔ سچ پوچھیں تو حکومت کو چاہئے کہ پبلک ٹرانسپورٹ اور ریلوے پر عائد پابندی ختم کردے، لوگوں کو اپنا شوق پورا کرنے دے۔ حیران ہوں کس کو حال دل سنایا جائے۔

مزید پڑھیں:  ملازمین اور پنشنرز کا استحصال ؟