وزیراعظم شہبا شریف کی صدارت میں ہونے والے مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں نئی مردم شماری کی متفقہ منظوری دیدی گئی ہے جس کے تحت پاکستان کی آبادی 24 کروڑ سے بھی بڑھ گئی ہے وزارت منصوبہ بندی کی بریفنگ کے دوران ڈیجیٹل مردم شماری کے نتائج پیش کئے گئے۔ وزیراعظم نے اس موقع پر بڑھتی ہوئی آبادی اور وسائل کی کمی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ صوبے اور تمام ادارے آبادی کی شرح روکنے کے اقدام کریں۔ وزیراعظم نے کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل وفاق کی مضبوطی کیلئے ایک اہم آئینی ادارہ ہے۔پاکستان میں پہلی ڈیجیٹل مردم شماری بہترین طور سے مکمل ہوئی جو خوش آئند ہے۔ وزیراعظم نے مزید کہا کہ صوبائی حکومتوں اور پاکستان ادارہ شماریات نے اس قومی فریضے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آبادی میں اضافے کی موجودہ رفتار انتہائی پریشیان کن ہے ہمارے تمام قومی اداروں اور صوبائی حکومتوں کو آبادی میں اضافے کے رجحان کو روکنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے ہوں گے۔ ملک کے محدود وسائل بڑھتی ہوئی آبادی کیلئے ناکافی ہیںاگر آبادی کی شرح نمو موجودہ رفتار سے جاری رہی تو ہماری تمام تر کوششوں کے باوجود پاکستان میں غربت ا ور بے روزگاری میں اضافہ ہوگا۔ محفوظ مستقبل کیلئے ہمیں آبادی میں اضافے پر قابو پانے اور موجودہ آبادی کی ترقی و خوشحالی کیلئے اقدامات کرنے ہوں گے۔ بعدازاں وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ مشترکہ مفادات کونسل کے تمام 8 ارکان نے مردم شماری کی متفقہ طور پر منظوری دی۔ انہوں نے کہا کہ حلقہ بندیوں کا کام 120 دن میں ہونا ہے۔ قومی اسمبلی میں تمام صوبوں کا حصہ وہی رہے گا جبکہ آئین کے آرٹیکل (1)15 کے تحت عام انتخابات شائع کی گئی مردم شماری کے تحت ہوں گے۔ مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے کے بعد ملک میں اگلے پانچ سالہ انتخابات کے انعقاد پر بھی سول اٹھ گئے ہیں۔ اگرچہ اتحادیوں کے مابین موجودہ اسمبلیوں کی مدت کے حوالے سے متفقہ فیصلہ بھی گزشتہ روز سامنے آگیا تھا جس کے مطابق بدھ 9 اگست کو اسمبلیاں توڑ دی جائیں گی جس کے بعد آئینی تقاضے کے مطابق اگلے 90 دن کے بعد عام انتخابات منعقد کرنے لازمی ہیں تاہم اب جبکہ نئی مردم شماری کی متفقہ طور پر منظوری دیدی گئی ہے اور اس حوالے سے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کے بقول نئی حلقہ بندیوں پر 120 دن لگ سکتے ہیں تو اب نگران حکومت چاہے بھی تو 90 دن کے بعد انتخابات کا انعقاد اس کیلئے ممکن نہیں رہا کہ الیکشن کمیشن پہلے نئی حلقہ بندیوں کا کام مکمل کرے گا جس کے بعد ایک اور ممکنہ عدالتی جنگ شروع ہوسکتی ہے یعنی انتخابات میں دلچسپی رکھنے والی جماعتیں اور امیدوار اپنے اپنے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے عدالتوں سے رجوع کرسکتے ہیں جس پر مزید ایک ڈیڑھ مہینہ لگ سکتا ہے یوں عام انتخابات ممکنہ طور پر اگلے سال مارچ تک التواء کا شکار ہوسکتے ہیں۔ ادھر بعض سیاسی رہنماء ابھی سے نئی مردم شماری ہی پر سوال اٹھاکر ان کے خلاف عدالتوں سے رجوع کرنے پر تل گئے ہیں اس ضمن میں سیاسی رہنماء فواد چوہدری نے مردم شماری کو عدالت میں چیلنج کرتے ہوئے اپنے ٹیویٹر بیان میں کہا ہے کہ نئی مردم شماری پنجاب کے سیاسی حقوق پر بہت بڑا ڈاکہ ہے کیا ہوا کہ پنجاب کی آبادی اتنی کم گئی ہے اور قومی اسمبلی کی آٹھ نشستیں کم ہوگئیں۔ فواد چوہدری نے مزید کہا کہ نہ طریقہ کار پر بحث ہوئی نہ نتائج کی شفافیت کا پتا اس سے پہلے مردم شماری کے نتائج (غیر سرکاری) کے حوالے سے کراچی اور حیدر آباد کے حوالے سے ایم کیو ایم نے بھی اعتراضات اٹھائے تھے۔ سو دیکھنا ہے کہ مردم شماری کی منظوری کے بعد ایم کیو ایم کا رویہ کیا ہوتا ہے۔ اسی طرح پشاور کے ایک سینئر صحافی اسماعیل خان نے بھی اپنے ایک ٹویٹ پیغا میں خیبر پختونخوا کی آبادی کے حوالے سے بڑے سنجیدہ سوال اٹھائے ہیں اور استفسار کیا ہے کہ خیبر پختونخوا گزشتہ مردم شماری کے مقابلے میں تازہ مردم شماری میں جس صورتحال سے دوچار ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا صوبے میںبچوں کی پیدائش کا سلسلہ ہی بند ہوگیا ہے ؟یا اس میں کمی کا رجحان پیدا ہوگیا ہے یا پھر یہاں کی آبادی نقل مکانی کرتے ہوئے کہیں اور منتقل ہوگئی ہے؟ غرض اس قسم کے سوالات سے اگر راہ فرار اختیار کرتے ہوئے خاموشی کی چادر اوڑھ لی گئی تو پھر یہ سوال اگلی مردم شماری تک ہمارا پیچھا کرتے رہیں گے اور اگر فواد چوہدری نے اپنی دھمکی کو عملی جامہ پہناتے ہوئے ان نتائج کو عدالت میں چیلنج کردیا تو حتمی فیصلے تک پہنچتے ہوئے مزید چند ماہ لگ سکتے ہیں اور اتنی مدت تک انتخابات میں التواء سے مسائل جنم لے سکتے ہیں۔ بہرحال یہ سنجیدہ معاملہ اور اسے حل کئے بناء آگے بڑھنے اور انتخابات ”بروقت” کرانے پر بھی مشکلات درپیش ہوسکتی ہیں اس لئے اب دیکھنا یہ ہوگا کہ الیکشن کمیشن اس نئی صورتحال سے کیونکر اور کیسے عہدہ برآ ہوسکتا ہے۔
