p613 2

مشرقیات

عرب سالار قتیبہ بن مسلم نے اسلامی لشکر کشی کے اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے سمر قند کو فتح کر لیا تھا ، اصول یہ تھا کہ حملہ کرنے سے پہلے تین دن کی مہلت دی جائے اور یہ بے اصولی ہوئی بھی تو ایسے دور میں جب زمانہ بھی عمر بن عبدالعزیز کا چل رہا تھا ۔ سمر قند کے پادری نے مسلمانوں کی اس غاصبانہ فتح پر قتیبہ کے خلاف شکایت دمشق میں بیٹھے مسلمانوں کے حاکم کو ایک پیغام کے ذریعے خط لکھ کر بھجوائی ۔ پیامبر دمشق پہنچا لوگوں نے اسے حاکم کے گھر کا راستہ دکھایا ۔ پیامبر لوگوں کے بتائے ہوئے راستہ پر چلتے حاکم کے گھر جا پہنچا ۔ پیامبرنے اپنا تعارف کرایا اور خط حاکم کو دیدیا۔ اس شخص نے خط پڑھ کر اسی خط کی پشت پر ہی لکھا : عمر بن عبدالعزیز کی طرف سے سمر قند میں تعینات اپنے عامل کے نام ، ایک قاضی کا تقرر کرو، جو پادری کی شکایت سنے ۔ مہر لگا کر خط واپس پیامبر کو دیدیا۔ سمر قند لوٹ کر پیامبر نے خط پادری کو تھمادیا ، جسے پڑ ھ کر پادری کو بھی اپنی دنیا اندھیر ہوتی ہوئی دکھائی دی ،خط تو اسی کے نام لکھا ہوا تھا ، جس سے انہیں شکایت تھی ۔ مگر پھر بھی خط لے کر مجبوراً اس حاکم سمر قند کے پاس پہنچے جس کے فریب کا وہ پہلے ہی شکار ہو چکے تھے ۔ حاکم نے خط پڑھتے ہی فوراً ایک قاضی (جمیع نام کا ایک شخص) کا تعین کر دیا ، جو سمر قندیوں کی شکایت سن سکے ۔ موقع پر ہی عدالت لگ گئی ، قاضی نے سمر قندی سے پوچھا ، کیا دعویٰ ہے تمہارا؟ پادری نے کہا: قتیبہ نے بغیر کسی پیشگی اطلاع کے ہم پر حملہ کیا ، نہ تو اس نے ہمیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تھی ، اور نہ ہی ہمیں کسی سوچ و بچار کا موقع دیا تھا ۔ قاضی نے قتیبہ کو دیکھ کر پوچھا ، کیا کہتے ہو تم اس دعویٰ کے جواب میں ؟
قتیبہ نے کہا: قاضی صاحب ، ہم نے موقع سے فائدہ اٹھایا تھا ۔قاضی نے کہا : میں دیکھ رہاہوں کہ تم اپنی غلطی کا اقرار کر رہے ہو ۔ قتیبہ ! خدا نے اس دین کو فتح اور عظمت تو دی ہی عدل وانصاف کی وجہ سے ہے ، نہ کہ دھوکہ دہی اور موقع پرستی پر ۔ میری عدالت یہ فیصلہ سناتی ہے کہ تمام مسلمان فوجی اور ان کے عہدہ داران بمع اپنے بیوی بچوں کے ، اپنی ہر قسم کی املاک ، گھر اور دکانیں چھوڑ کر سمر قند کی حدود سے باہر نکل جائیں اور سمر قند میں کوئی مسلمان باقی نہ رہنے پائے ۔ چند گھنٹوں کے بعد ہی سمر قند یوں نے اپنے پیچھے گردوغبار کے بادل چھوڑتے لوگوں کے قافلے دیکھے جو شہر کو ویران کر کے جارہے تھے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ سمر قندی یہ فراق چند گھنٹے بھی برداشت نہ کرپائے ، اپنے پادری کی قیادت میں کلمہ طیبہ کا اقرار کرتے مسلمانوں کے لشکر کے پیچھے روانہ ہوگئے اور ان کو واپس لے آئے اور یہ سب کیوں نہ ہوتا ، کہیں بھی تو ایسا نہیں ہوا تھا کہ فاتح لشکر اپنے ہی قاضی کی کہی دو باتوں پر عمل کرے اور شہر کو خالی کردے ۔
(قصص من التاریخ ، صفحہ نمبر 411ء شیخ علی طنطاوی )

مزید پڑھیں:  ڈینگی کا موسم اور احتیاط