editorial 2 1

بدگمانی’ معاشرتی خرابیاں اور اسلام

انسان کی جبلت بدگمانی کی ہے۔ بہت کم لوگ ایسے ہیں خوش گمانی جن کا شیوہ ہے اور وہ ہر معاملے میں اچھا پہلو تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم لوگ بدگمان بھی ہیں اور اس رسم بد میں مبتلا ہو کر مزید کھوج لگانے کی سعی بھی کرتے رہتے ہیں حالانکہ یہ ہمارے حق میں قطعی طور پر بہتر نہیں ہے۔ نبی کریمۖ نے اس بری عادت سے بچنے کی ہدایت فرمائی ہے۔ حدیث مبارکہ ہے: ”واذا ظننتم فلا تحققو” مطلب جو شے تمہیں بدگمانی میں مبتلا کردے تم اس کی تحقیق نہ کرو۔ عام انسانی عمل کے برعکس یہ کتنی مختلف بات ہے۔ لوگ تحقیق ہی اس بات کی کرتے ہیں جہاں انہیںکسی حوالے سے بدگمانی ہو جاتی ہے اور ہمار ے پیارے نبیۖ ہمیں ہدایت فرما رہے ہیں کہ یہ کام قطعاً نہ کرو۔ قرآن کریم میں ایمان والوں کو مخاطب کرتے ہوئے یہی عمل کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ سورة الحجرات کی آیت مبارکہ اس بابت کتنی اچھی ہدایت ہے، فرمایا گیا ہے، ترجمہ: اے ایمان والو بہت بدگمانیوں سے بچو’ اس لئے کہ بعض بدگمانیاں گناہ ہیں۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ جو لوگ اپنے آپ کو بدگمانیوں میں مبتلا کئے رکھتے ہیں وہ اپنے سکون کے سب سے بڑے دشمن ہوتے ہیں۔ معاشرے میں انتشار اور بداعتمادی کی فضا بھی اسی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ اسلام نے کرۂ ارض پر ایک پرسکون معاشرے کی بنیاد رکھی تو اس کی وجہ وہ تعلیمات تھیں جن پر عمل پیرا ہو کر مسلمان ایک دوسرے کے بھائی بھائی بن گئے۔ ایک دوسرے پر اعتماد کرنے والے’ ایک دوسرے کا خیال رکھنے والے’ ایک دوسرے کا بھلا چاہتے والے’ ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونے والے’ ایک دوسرے کی غیبت سے بچنے والے کہ یہ عادت اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف قرار دی گئی ہے۔ پوچھا گیا یا رسول اللہ اگر وہ بری عادت واقعتا اس شخص میں ہو تو کیا اس کو بیان کرنا بھی غیبت ہے۔ آپۖ نے فرمایا یہی تو غیبت ہے’ ورنہ گر وہ عادت اس شخص میں نہ ہو تب تو یہ اس کے اوپر بہتان ہے اور بہتان بہت بڑا ظلم ہے۔ اسلام یونہی دنیا پر چھا نہیں گیا’ اسلامی تعلیمات نے وہ انسان پیدا کئے جو اپنے کردار اور رویوں میں بے مثال تھے۔ آج کا مسلمان صرف نام کا مسلمان ہے’ اسے ان اعلیٰ کردار لوگوں سے کیا نسبت ہو سکتی ہے۔
آج کا مسلمان تو فقط راکھ کا ڈھیر ہے، ایک ایسا انسان جو بدعہدی’ چالاکی اور جھوٹ جیسی عادات کا اسیر ہو وہ مسلمان ہونے کا دعویٰ بھی کیونکر کر سکتا ہے۔ آقائے دوجہاں کا ارشاد بارک ہے کہ مسلمان جھوٹا نہیںہو سکتا۔ مسلمان بزدل ہو سکتا ہے لیکن مسلمان جھوٹا نہیں ہو سکتا۔ آج ہر طرف جھوٹ ہی جھوٹ ہے اسلئے بربادی ہے۔ اسلام چند عادات کی پابندی سمجھ لیا گیا ہے باقی فریب ہی فریب ہے۔ واصف علی واصف نے کہا تھا کہ جس محلے کی مسجد میں پانچ وقت کی نماز ادا کی جاتی ہو اس عبادت کا محلہ والوں کی صحت پر کوئی اثر نہ پڑے تو وہ عبادت قابلِ غور ہے۔ نماز’ روزہ’ حج وعمرہ یہ اس اصلی عبادت کیلئے مشق ہیں جس کیلئے انسان تخلیق کیا گیا ہے۔بحیثیت قوم ہمارا المیہ ہے کہ منبر ومحراب نان ایشوز میں اُلجھ گئے ہیں جبکہ سیاسی قیادت کا ایجنڈا قوم کی تعمیر کا نہیں ہے۔ ٹینگیئر سے لیکر فلپائن تک تمام اطراف ایک جیسا حال ہے۔ ہر مسلمان ملک کا نوحہ ایک ہی طرح کا ہے۔ کونسا مسلمان معاشرہ ہے جسے ماڈل معاشرہ قرار دیا جا سکے۔ رمضان المبارک کے مقدس ایام میں بھی ہمارے طور اطوار نہیں بدلے۔ یہ اللہ تعالیٰ سے لو لگانے کے دن ہیں لیکن دنیاداری ہماری ترجیح ہے اور محض بھوک پیاس برداشت کرنے کے سوا ہم نے ان مقدس لمحوں میںکچھ حاصل نہیں کیا۔ ہم پندرہ گھنٹے بھوکے پیاسے ضرور رہتے ہیں لیکن ہمارے دل کی دنیا تبدیل نہیں ہوئی۔ اندر کی غلاظت صاف ہو گی تو پاکیزگی آئے گی لیکن یہ ہمارا ٹارگٹ نہیں ہے۔ ہم چاہتے ہیں دنیا تبدیل ہو جائے لیکن اپنے آپ کو بدلنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ خود کو بدلنے سے تبدیلی کا آغاز ہوتا ہے اور ایسے انسانوں پر خدا بھی مائل بہ کرم ہوجاتا ہے لیکن جو خود کو بدلنے پر آمادہ نہ ہوں ان کی حالت زار پر انہیں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہ قرآن کا فیصلہ ہے۔ شعر کی زبان میں کچھ یوں ہے کہ
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا
بات بدگمانی سے شروع ہوئی تھی۔ معاشرتی برائیوں میں بدگمانی اس لحاظ سے بہت بڑی خرابی ہے کہ یہ باہمی اعتماد کے رشتے کو کمزور کرتی ہے اور معاشرتی بے چینی کا باعث بنتی ہے۔ ذرا تصور کریں کہ جس معاشرے میں لوگ ایک دوسرے کے بارے میں بدگمانی میں مبتلا رہیں وہاں اور کتنی بُری صفات جنم لیں گی۔ خود غرضی’ عدم تحفظ’ جھوٹ’ فریب’ بدعہدی اور چالاکی ومکاری اس بدگمانی کے بطن سے پیدا ہونے والی خرابیاں ہیں۔ جس معاشرے میں لوگ ایک دوسرے کے بارے میں خود گمان ہوں کہ جو دوسرے نے کہا ہے وہ درست ہوگا اور جو کچھ وہ کہہ رہا ہے وہ اس پر ویسے ہی عمل بھی کرے گا تو باہمی اعتماد اور خوشگوار تعلقات کی کیسی مضبوط بنیاد استوار ہوگی۔ دنیا کی مہذب اور ترقی یافتہ اقوام کے معاشرتی اوصاف پر ایک نگاہ ڈالنے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے وہ ان تمام صفات سے مزین ہے جن کی اسلام تعلیمات دیتا ہے’ خوش گمانی ان میں سے ایک ہے۔ خوش گمانی کا وصف اس لئے بھی اہم ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تمہارے گمان جیسا ہوں۔ جب ہم اچھا گمان رکھیں گے تو وہ کام اور معاملہ بفضل تعالیٰ خوش اسلوبی سے طے پائے گا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ رمضان کے مقدس مہینے میں ہمیں اسلامی تعلیمات کو صحیح طور پر سمجھنے اور اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

مزید پڑھیں:  سرکاری و نجی ہائوسنگ سکیموں کی ناکامی