بھادوں کے بارے میں پشاور میں ایک روایتی جملہ قدیم زمانے سے رائج ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ”پہادرو پدرا وے تے گوری رنگ وٹاوے” یعنی جب بھادوں اپنی ”کرنی”پر آجائے تو اس میں گرمی کے زور سے گوری چٹی بھی رنگ بدلنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔’گو یا سفید رنگت سیاہی مائل ہو جاتی ہے’ کچھ ایسی ہی کیفیت گزشتہ چند روز سے اس مہینے کے آخر آخر میں ہو رہی ہے’اگرچہ ہندکو زبان کی اس کہاوت کے مقابلے میں پشتو زبان میں اسی بھادوں کے مہینے کے حوالے سے ذرا نرم بیانیہ بھی موجود ہے’ اور چونکہ اردو اور ہندکو کے بھادوں اور پہادرو کے مہینے کو ”بادرو”کہتے ہیں، یوں اس مہینے کے پشتو نام میں دو لفظ یعنی ”باد” (ہوا) اور” رو” یعنی آہستہ سے چلنے کو یکجا کر کے اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ پشتو زبان میں پشکال اور دیگر زبانوں میں ساون کی شدید گرمی کے بعد” باد رو”کے حوالے سے مشہور ہے کہ اگر اس مہینے میں ہوائیں چلنا شروع ہو جائیں تو پھر پورا مہینہ نہایت آرام سے گزرتا ہے تا ہم کیا کیا جائے کہ موسموں کا اختیار تو اللہ میاں کے پاس ہے اور جب اللہ کے کاموں میں انسان(اپنی بدبختی کی وجہ سے )خواہ مخواہ دخیل ہونا شروع ہو جاتا ہے تو پھر سارا نظام ہی تلپٹ ہو کر رہ جاتا ہے اور وہ اب جو بھادوں کی سختی کے حوالے سے اخبارات میں بھی خبریں آنا شروع ہو گئی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ گرمی نے بھادوں کے آخری ایام میں ریورس گئیر لگا کر بد ترین گرمی پھیلانا شروع کر دی ہے تو اس کی وجہ خود ہمارے ہی اپنے کرتوت ہیں، یعنی جنگل مافیا نے جس بے دردی سے جنگلات کاٹ کاٹ کر سر سبز و شاداب جنگلات کو چٹیل میدانوں میں ڈھالنا شروع کردیا ہے اس کے بعد موسم پر اس کے اثرات کیوں نہ پڑیں بلکہ اب تویہ کہا جاتا ہے کہ چند برس پہلے پاکستان کے اندر چار موسموں کی جوبات کرتے ہوئے اسے اللہ تعالیٰ کی عنایت قرار دیا جاتا تھا ، جنگلات کی تباہی نے اب اس چوتھے موسم کی بیخ کنی کرتے ہوئے اسے ختم کر دیا ہے اور اب پاکستان میں چار کی بجائے تین ہی موسم رہ گئے ہیں۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ خود ہمیں بھی اس حوالے سے تجربات سے گزر کر موجودہ تلخی حالات سے سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس کی حقیقت تو یہ ہے کہ ہم اپنے لڑکپن سے لیکر جوانی کے کئی برس تک ان چار موسموں کا نظارہ کرتے رہے ہیں اور ہمارا روٹین یہ تھاکہ شام کو دوستوں سے گپ شپ کے لیے اپنی موٹر سائیکل اور ازاں بعد سکوٹر پر شہر سے صدر آنا پڑتا تو موسم کی تبدیلی کے حوالے سے دو تاریخیں ہیں اچھی طرح یاد ہیں، یعنی گرمی کی ابتدا ہمارے حساب سے 15اپریل کو ہو جاتی تونہ صرف گرم کپڑے ترک کردئے بلکہ پشاور کے دو(مرحوم) کیفے سلور سٹارسے ”بوریا بستر” سمیٹ کرارباب روڈ پرگارڈینا کیفے میںڈیرے جمانا شرع کردیئے جہاں کھلے آسمان تلے چمن میں پڑی میز کرسیوں پرلوگ چائے اورسنکیس(سموسے ‘ کٹلٹس ‘ شامی کباب) وغیرہ سے لطف ہوتے اور پھر پندرہ ستمبر کے بعد واپس سلور سٹار منتقل ہوجاتے کہ کھلے آسمان تلے خنکی کاراج ہوجاتا ‘ جبکہ اپنے ساتھ سویٹر بھی سکوٹرمیں رکھ کر واپسی پرپہننالازم ہوجاتا کہ ٹھنڈی ہوائیں چلنا شروع ہو جاتیں اورصرف قمیض شلوار یاپتلون کے ساتھ قمیض اس ٹھنڈ کوبرداشت نہ کرسکتی ‘مگراب تو جو صورتحال ہے اس نے تووہ مصرعہ یاد دلادیا ہے کہ
وہ حبس ہے کہ لوکی دعا مانگتے ہیں لوگ
حالانکہ جس زمانے کی ہم بات کر رہے ہیں یعنی جب موسم اپنی فطری رفتارسے چلتے ہوئے اپنی جولانیاں دکھاتا رہتاتھا تو اس کی کیفیت بیدل حیدری کے اس شعرمیں بہت خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے کہ
گرمی لگی توخود سے الگ ہوکے سوگئے
سردی لگی توخود کودوبارہ پہن لیا
ساون اوربھادوں کے بعد جو مہینہ آتا ہے اسے ہندی اور اردو میں اسوج کہتے ہیں جبکہ پشتو میں لفظ اسوج کے حرف جیم کونکال کر صرف”اسو” کہتے ہیں اورجس طرح پشتو میں بادرو کے بارے میںمشہور ہے کہ بادرو میںگرمی کی شدت سے پاگل ہوجانے والوں کے اچینی میں ایک بزرگ کی درگاہ سے بھی علاج نہ ہونے کی بات کی جاتی ہے یعنی کہتے ہیں کہ عمومی پاگل وہاں سے شفا پالیتے ہیں مگربھادوں کی گرمی کے متاثرین کا وہاں بھی علاج ممکن نہیں ہے اسی طرح اسو(اسوج) بظاہر تو بہتر ہوتا ہے مگراندر ہی اندرانسانوں کو جھلسا دیتا ہے توپشتو میں کہتے ہیں کہ ”اسو ‘ اودے سو” یعنی اے اسوج کے مہینے ‘ تونے جھلسا دیا ہے ‘ اسوج کے بارے میں یہ بات بھی بہت مشہور ہے کہ اس مہینے کی گرمی کو”گدھے” بھی برداشت نہیں کرسکتے بات گرمی کی ہو رہی ہے توکیاسیاست اور کیا معاشرت یعنی سماج ہر طرف خبروں کی گرم بازاری ہے’ ایک جانب صدرمملکت کی جانب سے انتخابات کے لئے تاریخ مقرر کرنے کی جوخبریں چند روز سے گرم تھیں ‘ تادم تحریر اس حوالے سے کوئی اطلاع سامنے نہیں آئی ‘ واقفان حال اس ضمن میں کچھ اہم ملاقاتوں کی کہانی سنا رہے ہیں تودوسری طرف الیکشن میں تاخیر کی باتیں ہو رہی ہیں جس کے لئے آئینی اور قانونی موشگافیوں کاسہارا لیتے ہوئے نئی مردم شماری کے بعد نئی حلقہ بندیوں کوحتمی شکل دینے باتیں کی جارہی ہیں ‘ اور بعض حلقے اس صورتحال کی آڑ میں ملک میں انتخابات کے”لمبے عرصے” کے لئے التواء کے ”الزامات” لگا رہے ہیں حالانکہ نگران وزیر اعظم نے چند روز پہلے واضح کر دیاتھا کہ ضرورت سے زیادہ ایک روزبھی انتخابات کرانے میں تاخیر نہیں کی جائے گی جبکہ یہ جو لیگ نون کے رہنما اور سابق وزیر اعظم میاں نوازشریف کی وطن واپسی کی تاریخ بالاخرسامنے آگئی ہے اورمسلم لیگ نون کے اپنے حلقوں کی بڑی بیٹھک کے بعد سابق وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے بڑے میاں صاحب کی واپسی کے حوالے سے 21 اکتوبر کااعلان سامنے آیا ہے تو اسے کسی اور حوالے سے دیکھا جائے تو ضرور دیکھا یا پرکھا جائے یا نہیں ‘ مگر ہم سمجھتے ہیں کہ اسے انتخابات کے انعقاد کے بیرومیٹر کے طور پر ضرور دیکھا جانا چاہئے ‘ کیونکہ اگر اتنی ردو قدح کے بعد کسی حتمی فیصلے کا اعلان سامنے آہی گیا ہے تو اس کا مطلب بالکل واضح ہے کہ انتخابات زیادہ دور نہیں اور اگر صدر مملکت کی جانب سے کوئی اعلان نہ بھی کیاجائے تو بہر صورت التواء کا معاملہ اگلے سال فروری مارچ سے آگے ہر گز نہیں جائے گا ہاں البتہ اگرمیاں صاحب کی واپسی کی تاریخ ایک بار تبدیل ہوجائے توپھر انتخابات کے انعقاد پر سوال اٹھ سکتے ہیں ‘ تاہم اس کے زیادہ امکانات نہیں ہیںکیونکہ لیگ نون نے بڑے میاں صاحب کی وطن واپسی پر”فقید المثال”استقبال کی تیاریوں کاآغاز کردیا ہے اور اس حوالے سے جوسرگرمیاں نظرآنا شروع ہو جائیں گی ‘ ان کی ”گرمی”بھادوں اور اسوج کی گرمی کو مات بھی دے سکتی ہیں یعنی بقول احمد فراز
بتا رہا ہے فضا کا اٹوٹ سناٹا
افق سے پھر کوئی آندھی اترنے والی ہے
