وہ چچا سے پھوپا بنے اور پھوپا سے خسر الخدر لیکن مجھے آخر وقت تک نگاہ اٹھا کر بات کرنے کی جسارت نہ ہوئی۔ نکاح کے وقت وہ قاضی کے پہلو میں بیٹھے تھے۔ قاضی نے مجھ سے پوچھا ”قبول ہے؟” ان کے سامنے منہ سے ہاں کہنے کی جرات نہ ہوئی۔ بس اپنی ٹھوڑی سے دو مودبانہ ٹھونگیں مار دیں جنہیں قاضی اور قبلہ نے رشتہ مناکحت کے لئے ناکافی سمجھا قبلہ کڑک کر بولے ”لونڈے بولتا کیوں نہیں؟” ڈانٹ سے میں نروس ہو گیا۔ ابھی قاضی کا سوال بھی پورا نہیں ہوا تھا کہ میں نے”جی ہاں قبول ہے” کہہ دیا۔ آواز ایک لخت اتنے زور سے نکلی کہ میں خود چونک پڑا قاضی اچھل کر سہرے میں گھس گیا۔ حاضرین کھلکھلا کے ہنسنے لگے۔ اب قبلہ اس پر بھنّا رہے ہیں کہ اتنے زور کی ہاں سے بیٹی والوں کی ہیٹی ہوتی ہے۔ بس تمام عمر ان کا یہی حال رہا۔ اور تمام عمر میں کربِ قرابت داری وقربتِ قہری دونوں میں مبتلا رہا۔
حالانکہ اکلوتی بیٹی، بلکہ اکلوتی اولاد تھی اور بیوی کو شادی کے بڑے ارمان تھے، لیکن قبلہ نے مائیوں کے دن عین اس وقت جب میرا رنگ نکھارنے کے لئے ابٹن ملا جا رہا تھا، کہلا بھیجا کہ دولہا میری موجودگی میں اپنا منہ سہرے سے باہر نہیں نکالے گا۔ دو سو قدم پہلے سواری سے اتر جائے گا اور پیدل چل کر عقد گاہ تک آئے گا۔ عقد گاہ انہوں نے اس طرح کہا جیسے اپنے فیض صاحب قتل گاہ کا ذکر کرتے ہیں۔ اور سچ تو یہ ہے کہ قبلہ کی دہشت دل میں ایسی بیٹھ گئی تھی کہ مجھے تو عروسی چھپر کھٹ بھی پھانسی گھاٹ لگ رہا تھا۔ انہوں نے یہ شرط بھی لگائی کہ براتی پلاؤ زردہ ٹھونسنے کے بعد ہرگز یہ نہیں کہیں گے کہ گوشت کم ڈالا اور شکر ڈیوڑھی نہیں پڑی۔ خوب سمجھ لو، میری حویلی کے سامنے بینڈ باجا ہر گز نہیں بجے گا…
(از مشتاق احمد یوسفی "آب گم” سے اقتباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک بار ایک درویش علّامہ اِقبال کے پاس آیا.آپ نے حسب عادت اْس سے دعا کی درخواست کی.پوچھا، "دولت چاھتے ھو؟” علّامہ نے جواب دیا: "میں درویش ہوں.۔۔۔دولت کی ہوَس نہیں.”
پوچھا "عِز و جاہ مانگتے ہو؟” جواب دیا: "وہ بھی خدا نے کافی بخش رکھی ہے.”پوچھا "تو کیا خدا سے ملنا چاہتے ہو؟” جواب دیا "سائیں جی کیا کہہ رہے ہو.میں بندہ وہ خدا. بندہ خدا سے کیوں کر مِل سکتا ہے؟
قطرہ دریا میں مل جائے تو قطرہ نہیں رہتا. نابود ہوجاتاہے.
میں قطرے کی حیثیت میں رہ کر دریا بننا چاہتاہوں.”
یہ سن کر اْس درویش پر خاص کیفیت طاری ہوئی. بولا:” بابا جیسا سْنا تھا، ویساہی پایا. تْو تَو خود آگاہِ راز ہے. تْجھے کسی کی دعا کی کیا ضرورت؟ ”
( ذکرِ اِقبال از عبدالمجید سالک)
