پی آئی اے کی بندش کا خطرہ

پاکستان کی قومی فضائی کمپنی جودنیا کے معروف ترین فضائی کمپنیوںکے لئے مادرکمپنی کی حیثیت سے شہرت کا حامل تھا آج تباہی و بربادی کی تصویر بنتے دیکھ کردکھ کااحساس ہوتا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ فی طیارے کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ سٹاف کی سیاسی اور دیگر بنیادوں پر بھرتی ہے ایک سابق وفاقی وزیر کاپی آئی اے کے پائلٹوں کے جعلی لائسنسزبارے غیرذمہ دارانہ بیان اور حفاظتی اقدامات اور دیگر وجوہات کی بناء پر پروازوں پرپابندی بھی اس کی تباہی کی داستان دراز کرنے کاباعث امور ٹھہرتے ہیں اس امر پر افسوس کا اظہار ہی کیاجاسکتا ہے کہ ماضی کی معروف فضائی کمپنی آج بندش کے دھانے پر پہنچ گئی ہے۔امر واقع یہ ہے کہ انٹرسٹ سپورٹ پروگرام کے تحت حکومت پی آئی اے پر عائد قرضوں پر سود کی ادائیگی کیلئے ہر سال 23 ارب روپے دیتی ہے گزشتہ سال پی ڈی ایم حکومت نے یہ رقم پی آئی اے کوجاری نہ ہو سکی اور اب نگران حکومت نے بھی ہاتھ کھڑے کردیئے ہیں۔ رقم نہ ملنے کے باعث پی آئی اے کی ادائیگیوں کا توازن بگڑ گیا ہے جبکہ قابل پرواز طیارے 30 سے کم ہوکر 23 ہوئے اور پچھلے 15 دن کے دوران مزید کم ہوکر 16رہ گئے اور اسی باعث پروازیں کم ہونے سے یومیہ آمدنی میں کروڑوں روپے کی کمی ہوگئی۔ وزارت ہوابازی نے وزارت خزانہ پر واضح کردیا ہے کہ اگر پی آئی اے کو آٹ سورس کرنا ہے تو فلائٹ آپریشن جاری رکھنا ہوگا، تب ہی پی آئی اے کو اچھا خریدار مل سکتا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ نگران حکومت تذبذب کا شکار ہے کہ فنڈز فراہم کرے یا پی آئی اے کو بند کردے۔محولہ صورتحال میں یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ پی آئی اے مزید قائم رہ سکتی ہے البتہ اسے بند کرنے کی بجائے اس کی نجکاری کے لئے سنجیدہ اقدامات اور نجکاری تک اسے چلانا ہی بہتر آپشن نظرآتا ہے اس بارے حکومت کو جلد سے جلد فیصلہ کرلینا چاہئے۔حکومت اگر اسے چلا نہیں پا رہی ہے اس قومی اثاثے کی بحالی ممکن نہیں تواسے کسی ٹوکری کی نذر کرنے کی بجائے شفاف نجکاری کی جائے۔