پاک افغان سرحدوں پرچترال اور طورخم پرحالات کی کشیدگی کے باعث بندش سے آمدورفت اور تجارت کامتاثر ہونا توفطری امر ہے اس سے بھی مشکل صورتحال یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی نوعیت میں کافی سے زیادہ تبدیلی آئی ہے جس میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے اور صورتحال کے معمول پرآنے کی بھی جلد کوئی صورت نظر نہیں آتی ممکن ہے پس پردہ سفارتکاری کے مثبت نتائج برآمد ہوں لیکن فی الوقت دونوں ملکوں کے درمیان اس حوالے سے مذاکرات میں بھی پیش رفت نہیں ہو رہی ہے قبل ازیں غلام خان سرحد پربھی تجارت معطل ہوئی تھی اور اس ضمن میں بھی مذاکرات کامیاب نہیں ہوسکے تھے ۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان اگرچہ قیام پاکستان کے بعد افغانستان کی جانب سے پاکستان کو تسلیم نہ کئے جانے کے وقت اور موقع سے اچھے تعلقات کی بنیاد نہ پڑسکی پھر روس کی مداخلت کے دنوں میں بھی دونوں ممالک کے درمیان بعد رہی البتہ اس دوران بڑے پیمانے پرافغان مہاجربن کر پاکستان آئے تو ان کو کھلے دل سے جگہ دی گئی مگر اس سے بھی ان کا دل موم نہ ہوا اور نہ ہی ان کی اکثریت پاکستان کی امداد اور پناہ دینے پرشکر گزار ہے یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جسے طالبان حکومت میں بھی نہ صرف جاری رکھاگیا بلکہ بدقسمتی سے اس میں اضافہ بھی ہوا جس کا نتیجہ آج سب کے سامنے ہے ۔مشکل امر یہ ہے کہ طالبان حکومت ٹی ٹی پی کولگام دینے کو تیار نہیں اوراپنی سرزمین دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نہ صرف ان کو استعمال کرنے کی اجازت دے رکھی ہے بلکہ چترال کی سرحدوں پردو مرتبہ حملوں کے واقعات کے حوالے سے اگر قرار دیا جائے کہ یہ واضح خلاف ورزی کابل کی مرضی ومنشاء کے بغیر ممکن ہی نہ تھا توغلط نہ ہوگا ایسے میں سرحدوں کی بندش اورتعلقات میں بدامنی ودراڑ پیدا ہونا تعجب کی بات نہیں اس کشمکش میں عام آدمی اورتاجر سب سے متاثرہ فریق ہیں اس تمام پس منظر کے ساتھ اس وقت پاکستان اور افغانستان کے درمیان طورخم کراسنگ کی ہفتے بھر کی بندش سے دو طرفہ تعلقات پرمزید برا اثر پڑا ہے جس سے تجارتی تعلقات خاص طور پر متاثر ہوئے ہیں، جب کہ سرحد پار کرنے کے خواہشمند افراد کو کافی انسانی پریشانی کا سامنا ہے۔ تنازعہ 6 ستمبر کو شروع ہوا جب فریقین میں فائرنگ کا تبادلہ ہوا پاکستانی حکام کاموقف ہے کہ افغانوں نے پاکستانی سرزمین پر ایک "غیر قانونی ڈھانچہ” بنانا شروع کر دیا تھا، جب کہ افغان فوجیوں نے متنازعہ تعمیرات پر آمنے سامنے ہونے پر”اندھا دھند فائرنگ”کی۔ دونوں اطراف کے حکام کے درمیان ہونے والی ملاقاتیں تنازع کو حل کرنے میں ناکام رہی ہیں، جس کے نتیجے میں سینکڑوں گاڑیاں سرحد کے اس پار جانے کے انتظار میں پھنسی ہوئی ہیں، جب کہ دوسری جانب جانے کے خواہشمند افراد کو پیدل سرحد عبور کرنے کی بھی اجازت نہیں اس سے تاجروں کا خاص طور پر کروڑوں روپے کا نقصان ہوا ہے، جس میں خراب ہونے والی اشیا ء سرفہرست ہیں افغانستان سے پھل اور سبزیاں منڈی میں نہیں پہنچ پا رہی ہیں اور گرم موسم میں گل سڑ رہی ہیں۔ کابل میں طالبان کی زیرقیادت حکومت کی طرف سے پاکستان کی معاشی مشکلات پر تنقید کرنے والے تبصروں نے یقینا غصے کو ٹھنڈا کرنے میں مدد نہیں کی ہے، جیسا کہ افغان فریق نے پاکستان کا حوالہ دیتے ہوئے یہ غیرذمہ دارانہ بیان دیا کہ ”موجودہ صورت حال میں برآمدات پر بہت زیادہ انحصار ہے”۔ دفتر خارجہ طالبان کے غیرضروری مشورے پر تنقید کرتا رہا ہے۔طورخم بارڈر پر ماضی میں بھی تصادم ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان علاقائی تنازعات اس ملک کی آزادی کے وقت سے ہیں۔ تاہم، افغان طالبان کو پاکستان کی حساسیت کا خیال رکھنے اور متنازعہ سرزمین پر تعمیراتی سرگرمیوں سے گریز کرنے کی ضرورت تھی جس کے باعث کشیدگی بڑھی اور ہفتہ بھر سے سرحد بند ہے۔ متنازعہ سرحدی علاقوں کی صحیح حد بندی کرنے کے لیے اعلی سطح کے وفود کے تبادلوں کی ضرورت ہے، تاکہ ان پریشانیوں کو مستقل طور پر حل کیا جا سکے۔ مزید برآں، دونوں طرف کے تاجر اور عام عوام سرحد کی توسیع کی وجہ سے پریشانی کا شکار ہیں، یہی وجہ ہے کہ اسلام آباد اور کابل کے حکام کو جلد از جلد کراسنگ کو دوبارہ کھولنے کی ضرورت ہے۔ طورخم افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کا ایک اہم ذریعہ ہے، لیکن پاکستان کے سیکورٹی خدشات کے ساتھ ساتھ اس ملک کی علاقائی خودمختاری کے احترام کو بھی کابل کے حکمرانوں کو حل کرنا چاہیے تاکہ سرحد پار اقتصادی سرگرمیاں آسانی سے جاری رہیں۔ دریں اثنا، پاکستان کی وسطی ایشیا کے ساتھ مضبوط تجارتی اور توانائی کے روابط قائم کرنے کی خواہش اس وقت تک پوری نہیں ہو سکتی جب تک کابل کے ساتھ خوشگوار تعلقات اور سلامتی کی ضمانتیں نہ ہوں۔ سرکاری چینلز کے ذریعے تجارت ایک باہمی فائدہ مند تجویز ہے، لیکن صرف اس صورت میں جب تنازعات سے پاک سرحدی انتظام ہو۔
