p613 3

پبلک ٹرانسپورٹ کے لئے ایس او پیز

پاکستان سمیت دنیا بھر کے اکثر ممالک میںکورونا تیزی کیساتھ پھیل رہا ہے ‘ کورونا سے ہونے والی اموات اور متاثرین کی شرح میں بھی کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے لیکن اس کے باوجود دنیا نے کورونا کیساتھ ہی جینے کا فیصلہ کر لیا ہے کیونکہ تاحال کورونا کی ویکسین تیار ہوئی ہے اور نہ ہی قریب قریب ویکسین کے تیار ہونے کا امکان ہے’ کاروبار اور مارکیٹیں اگرچہ پہلے ہی جزوی طور پر کھلے ہوئے تھے، اب حکومت نے پبلک ٹرانسپورٹ کو کھولنے کا اعلان کیا ہے’ حکومت خیبر پختونخوا نے پبلک ٹرانسپورٹ کیلئے ایس او پیز جاری کر دیئے ہیں’ حکومت کی جانب سے مسافر گاڑیوں میں سفر کرنے والے مسافروں ، ڈرائیوراور کنڈیکٹروں کیلئے رہنما اصول جاری کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اگر اصولوں پر عمل درآمد نہ کیا گیا تو ایسی گاڑیوںکو حکومتی تحویل میںلے لیا جائے گا۔ محکمہ بحالی وآبادکاری کی جانب سے تمام گاڑیوں میں مسافروں کیلئے سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے مسافروں کے داخلے کیلئے پچھلے دروازے جبکہ اُترنے کیلئے سامنے والے دروازے استعمال کرنے کو لازمی قرار دیا گیا ہے’ اس کیساتھ ہی روزانہ کی بنیاد پر بسوںمیںجراثیم کش سپرے اور گاڑیوں میںسوار ہونے سے قبل تمام مسافروںکا تھرمل گن کے ذریعے درجہ حرارت معلوم کرنے کی پابندی عائد کی گئی ہے۔ اڈا انتظامیہ کو ہاتھ دھونے کیلئے صابن اور سینی ٹائزر کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے پابند کیا گیا ہے ‘ اس کیساتھ ہی مخصوص لوگوںسے زیادہ مسافروں کی تعداد کو بٹھانے پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں سوار ہونے والے مسافروں کیلئے ماسک پہننا لازمی قرار دیا گیا ہے’ مسافروں کے ماسک نہ پہننے کی صورت میں اسے گاڑی میں سوار نہ کرنے کی پابندی عائد کی گئی ہے ‘ ماسک کے بغیر مسافروں کو گاڑی میں سوار کرنے کی صورت میں ڈرائیور اور کنڈیکٹر کے خلاف کارروائی کا عندیہ بھی دیا گیا ہے’ گاڑیوں کے دروازوں اور کھڑکیوں کو کھلا رکھنے کیساتھ ساتھ گاڑیوں میں ایئر کنڈیشنرنہ چلانے کا پابند بنایا گیا ہے۔ یہ درست ہے کہ ہم غیر محدود اور لامتناہی لاک ڈائون کے متحمل نہیں ہو سکتے ‘ ٹرانسپورٹ کی بندش سے عام شہری کا کاروبار اور نقل وحرکت شدید متاثر ہوئی ہے، پبلک ٹرانسپورٹ کی بحالی سے ملک کے لاکھوں مزدور فیکٹریوں تک بآسانی پہنچ پائیں گے ، کیونکہ پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے بالخصوص مزدور طبقہ انتہائی مجبوری میں ایک شہر سے دوسرے شہر یا ایک صوبے سے دوسرے صوبے جانے کیلئے شدید ترین اذیت کا شکار ہیں، وہ کئی گنا اضافی کرایہ دے کر پرائیویٹ کاروں ، رکشوں ، ٹریکٹر ٹرالیوں یا پھر ٹرالرز میں اذیت ناک حالت میں سفر کرنے پر مجبور ہیں۔ عوام کی انہی مشکلات کو دیکھتے ہوئے حکومت کی طرف سے لاک ڈائون میں نرمی اور معمولات زندگی کو بحال کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ‘ پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنے کیلئے مسافروں کو اجازت بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، چند ہی روز کے بعد عید الفطر ہے اور شہروں میں مقیم ملازمین ،مزدور اور کاروباری لوگوں کی بڑی تعداد عید سے قبل اپنے آبائی علاقوں کا رخ کرتی ہے’ آبائی علاقوں میں جانے کیلئے عوام کی اکثریت پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے ہی سفر کرتی ہے ‘ یوں عید سے قبل پبلک ٹرانسپورٹ کیلئے مشروط اجازت بہت اہمیت کی حامل ہے’ حکومت نے لوگوں کی حفاظت کیلئے اگرچہ کڑی شرائط رکھی ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان شرائط پر عمل درآمد ممکن ہو سکے گا؟ ہمارا خیال ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ کے حوالے سے عائد کردہ پابندیوں میںنصف پر بھی عمل درآمد مشکل دکھائی دیتا ہے’ وہ اس لیے کہ ایس او پیز میں قرار دیا گیا ہے کہ گاڑیوں میں داخل ہونے کیلئے پچھلا اور باہر نکلنے کیلئے سامنے والا دروازہ استعمال کیا جائے حالانکہ آج کل جو گاڑیاں ہمارے ہاں استعمال ہو رہی ہیں ان میں صرف ایک ہی دروازہ ہوتا ہے’ اس طرح اس شرط پر عمل درآمد مشکل ہو جائے گا’ اسی طرح گاڑیوں کی کھڑکیوں کو کھلا رکھنے کا حکم دیا گیا حالانکہ لانگ روٹ کیلئے استعمال ہونے والی گاڑیوں کی کھڑکیاںمکمل بند ہوتی ہیں اور ان میں کھولنے کا کوئی آپشن ہی نہیںہوتا’ اسی طرح گرمی کے ایام میں گھنٹوں کے سفر میں ایئر کنڈیشنر کے بغیر سفر کرنا بھی محال ہے جب کہ گاڑیوں کی نشستوں پر مخصوص تعداد میں مسافر بٹھانے کے حوالے سے بھی عمل درآمد مشکل ہے کیونکہ پبلک ٹرانسپورٹ کے مالکان کیلئے عید کمائی کا سیزن ہوتا ہے اور گنجائش سے زیادہ سواریوں کو سوار کیا جاتا ہے حتیٰ کہ گاڑیوں کی چھتوں پر بھی عوام سفر کرنے پر مجبور ہوتے ہیں’ ایس اوپیز کے تحت اگر فاصلہ چھوڑ کر سواریوں کو بٹھایا گیا تو پبلک ٹرانسپورٹ مالکان سواریوںسے اضافی کرایہ وصول کریں گے جس کا بوجھ عوام پر پڑنے کے خدشات ہیں کیونکہ ہر کسی کی خواہش ہو گی کہ وہ عید سے قبل اپنے پیاروں کے پاس پہنچ جائے’ سو مذکورہ بالا حقائق کی روشنی میں نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ محکمہ بحالی و آباد کاری کی جانب سے پبلک ٹرانسپورٹ کیلئے جو شرائط عائد کی گئی ہیں ان پر مکمل عمل درآمد نہیںہو سکے گا اور اس سلسلے میں برتی جانے والی بداحتیاطی کورونا کے پھیلائو کا باعث بن سکتی ہے ‘ اس لئے ضروری ہے کہ حکومت کی طرف سے بس اڈوں پر چیکنگ کا ٹھوس میکنزم بنایا جائے اور ہر صورت ایس او پیز پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔

مزید پڑھیں:  معاہدہ سندھ طاس امن کا ستون یا آبی بم؟