editorial 3 2

ملاکی اذاں اور مجاہد کی اذاں اور

بظاہر خبر بہت چھوٹی سی ہے اسی لئے اخباری کالموں میں اسے وہ اہمیت نہیں مل سکی بس سیدھی سیدھی سنگل کالمی عام سی خبر کے طور پر اس طرح چھپی ہے کہ صرف دو لائنوں کے بعد خبر کا بقیہ حصہ اخبار کے صفحہ10پر شائع کیاگیا ہے مگر اس خبر کی غرض وغایت کے حوالے سے اس کی افادیت کسی بھی تین کالمی یا چار کالمی خبر سے کم ہرگز نہیں ہے۔ خبر یہ ہے کہ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اور رکن قومی اسمبلی سردار اختر جان مینگل نے اپنی رہائش گاہ کو پرائمری سکول میں تبدیل کردیا اور بچوں کی کلاس منعقد کرتے ہوئے خود جائزہ لیا۔ سردار اختر جان مینگل نے اپنی نگرانی میں شاہ نور پرائمری سکول کے بچوں کو تعلیم فراہم کرنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ ہفتے کو انہوں نے اپنی رہائش گاہ پر اساتذہ اور طلباء کے ہمراہ بچوں کو تربیت دینے کے سلسلے کی خود نگرانی کی۔ پاکستان میں ایلیٹ کلاس کی جانب سے شعبہ تعلیم کیساتھ گزشتہ 70 برس سے جو ناروا سلوک روا رکھا گیا ہے اس کی جھلکیاں اکثر سامنے آتی رہتی ہیں مثلاً پہلے اپنے ہی گھر سے شروع کردیتے ہیں’ قیام پاکستان کے بعد جب کانگریس کی منتخب صوبائی حکومت کو برطرف کرکے صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا) میں خان قیوم کی حکومت قائم کی گئی تو اس وقت میاں جعفر شاہ کو وزیرتعلیم بنا یا گیا۔ موصوف چٹے ان پڑھ تو نہیں تھے البتہ شاید چھ جماعتیں پڑھے ہوئے تھے۔ بطور وزیرتعلیم ان کے کارنامے ہماری تاریخ کا حصہ تھے ‘ اسی طرح دیگر صوبوں میں بھی تعلیم کے شعبے کیساتھ جو کھلواڑ کی گئی اس کی تھوڑی سی تفصیل یہ ہے کہ ہر ایم این اے اور ایم پی اے کے حلقوں کیلئے تعلیم کے فروغ کے حوالے سے سکولوں کی عمارتیں قائم کرنے کیلئے جو فنڈز جاری کئے جاتے ان سے سکولوں کی عمارتیں تعمیر تو ضرور کرائی جاتیں مگر ان میں گائوں کے بچوں کیلئے کلاسز جاری کئے جانے کے بجائے گائوں کے چوہدری کے ڈھور ڈنگر خصوصاً گدھے بندھے ہوئے نظر آتے۔ محکمہ تعلیم کے ذمہ دار اگر کبھی معائنہ کیلئے آتے بھی تو ”سب اچھا” کی رپورٹ دیکر چوہدری کو خوش کرلیتے ‘ رہ گئے خود گائوں کے زمیندار’چودھری’ وڈیروں کے بچے تو وہ اپنے ہی گائوں سے قدرے دور بڑے قصبوں میں تعلیم حاصل کرکے ہائی سکولوں سے ہوتے ہوئے بڑے شہروں میں اعلیٰ تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کرکے یا تو لاہور کے ایچی سن جیسے اداروں میں بہ آسانی داخل ہوجاتے یا پھر اس سے بھی آگے جا کر انگلستان کے بڑے بڑے تعلیمی اداروں میں جاکر حصول علم کو مکمل کرنے میں کامیاب ہوجاتے اور واپس آکر یا تو سپریئر سروسز کے امتحانات آسانی سے پاس کرکے ”حکمرانوں” کی خصوصی صف میں جا پہنچتے یا پھر موروثی سیاست میں حصہ لیکر ”حکمران” بن جاتے۔ رہ گئے غریبوں کے بچے تو ان کیلئے اس وڈیرہ شاہی کیلئے مختلف کل پرزوں کی ضرورت کو پورا کرنا ہی تو ان کمی کمین لوگوں کی ذمہ داری ہوتی۔ ان کو پہلے تو کتاب سے ایسے دور رکھا جاتا جیسے کہ کسی خطرناک مرض سے انسان خود کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا جا رہا تھا۔ شعبہ تعلیم کیلئے کم سے کم رقم ہر سال بجٹ میں رکھ کر پسماندہ علاقوں کے غریب عوام کو حصول علم سے دور رکھتے ہوئے انہیں صحرا میں کسی نخلستان کی طرح سراب کے پیچھے دوڑایا جاتا۔ اس میں بھی اگر کسی نے اپنے طور پر دوچار جماعتیں پڑھ لیں تو یہ اس کا کمال تھا وگرنہ تعلیم تو عام غریب کیلئے شجر ممنوعہ سے زیادہ کچھ بھی نہیں تھا۔ اشفاق احمد نے غالباً ایسی ہی صورتحال کے بارے میں کہا تھا کہ جب جوتے شیشوں کی الماری میں رکھ کر سیل ہوں اور کتابیں فٹ پاتھ پر بکتی ہوں تو سمجھ لو اس قوم کو علم نہیں جوتوں کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے قوم کے اکابرین نے اپنی قوم کیلئے ہمیشہ جوتوں کا ہی انتخاب کیا ہے۔ جب ہم اپنے علمی شعور کاجائزہ لیتے ہیں اور ہادی بر حق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم کے حصول کے حوالے سے ارشادات عالیہ کو پرکھتے ہیں تو نبی مکرمۖ کے اقوال زریں کے برعکس کردار سے دل مسوس کر رہ جاتا ہے۔ پشتو کا ایک بہت ہی خوبصورت شعر ہے کہ
خانان بہ بیا سرہ خانان شی
پکی بہ دَل شی دہ رامبیل چامبیل گلونہ
یعنی یہ خان خوانین پھر ایک مٹھی ہو جائیں گے کہ ان کے مفادات ایک ہوتے ہیں البتہ ان کی عارضی جنگ میں یہ خوشنما اور بھینی بھینی خوشبو والے پھول مسلے جائیں گے۔ ان کے گروہی اور ذاتی مفادات ہی اس بات سے تھے کہ قوم کو من حیث المجموع جاہل ‘ اجڈ اور گنوار رکھ کر ان کی گردنوں پر غلامی کاطوق رکھ کر حکمرانی کی جائے۔ چند برس پہلے ایم ایم اے والوں نے صوبہ خیبر پختونخوا میں اقتدار سنبھالنے سے پہلے عوام کیساتھ وعدہ کیا تھا کہ حکومت سنبھالتے ہی ہم گورنر ہائوس کو خواتین کیلئے یونیورسٹی اور چیف منسٹر ہائوس کو بہت بڑی پبلک لائبریری میں تبدیل کردیں گے مگر جب اقتدار میں آئے تو یہ پتھر ان کے تصور سے کہیں زیادہ بھاری پن کاشکار تھا اسلئے وہ اسے چومنے تک ہی پر اکتفا کرکے رہ گئے۔ ابھی سیاسی تاریخ میں مخالف سیاسی جماعتوں کی جانب سے ایم ایم اے والوںپر اس حوالے سے طنز وتشنیع کے تیر چلا ہی کئے کہ عمران خان نے بغیر کسی سوچے سمجھے منصوبے کے ایوان صدر اور ایوان وزیراعظم کو عالمی سطح کے تعلیمی اداروں میں ڈھالنے کے انتخابی وعدے شروع کردئیے۔ اقتدار سنبھالتے ہی انہوں نے کچھ اقدامات اُٹھائے بھی ‘ وزیراعظم ہائوس کی گاڑیاں اور بھینسیں نیلام کرکے ذمہ داری ختم کرنے کی کوشش کی۔ اخراجات کم کئے مگریہ جو ملک کے سیکورٹی کے ادارے ہیں ان کو صرف خواہشوں کو نہیں عالمی برادری کیساتھ تعلقات کی نوعیت کو بھی دیکھنا پڑتا ہے اس لئے وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے یعنی عالمی مہمانوں کو خوش آمدید بھی تو کہنا ہوتا ہے’ سو وعدے فتربود ہو جاتے ہیں البتہ اخترجان مینگل جیسے لوگ اگر ذاتی جائیدادوں کی قربانی دیں تو کامیابی ضرور قدم بوسی کیلئے آجاتی ہے کہ بقول علامہ اقبال
الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں لیکن
ملا کی اذاں اور مجاہد کی اذاں اور

مزید پڑھیں:  وصال یار فقط آرزو کی بات نہیں