نظرثانی درخواستیں فوری مقرر ہوتی ہیں لیکن یہ چار سال میں مقرر نہ ہوئیں، اٹارنی جنرل آپ نے یہ سوال کیوں نہیں اٹھایا کہ نظرثانی درخواستیں پہلے کیوں نہ لگیں، چیف جسٹس
ویب ڈیسک: فیض آباد دھرنا کے حوالے سے نظر ثانی کیس پر دوران سماعت سپریم کورٹ نے فریقن سے تحریری جواب طلب کر لیا۔ 2017 میں تحریک لبیک پاکستان کے فیض آباد میں دیئے گئے دھرنے کے حوالے سے سپریم کورٹ میں نظرثانی درخواستوں پر سماعت ہوئِی۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس امین الدین خان پر مشتمل تین رکنی بینچ نے فیض آباد دھرنا نظر ثانی کیس کی سماعت کی تاہم سماعت سے قبل ہی فریقین نے نظر ثانی درخواستیں واپس لے لیں۔ وفاق نے بذریعہ وزارت دفاع نظرثانی درخواست دائر کی تھی تاہم اب اٹارنی جنرل عثمان منصور نے کہا ہے کہ فیض آباد دھرنا نظرثانی درخواست واپس لے رہے ہیں۔ اس دوران وفاقی حکومت، تحریک انصاف اور الیکشن کمیشن نے بھی اپنی اپنی درخواستیں واپس لے لیں۔
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے کہا کہ نظرثانی درخواستیں فوری مقرر ہوتی ہیں لیکن یہ چار سال میں مقرر نہ ہوئیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم نظرثانی درخواست واپس لینا چاہتے ہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ آپ درخواست کیوں واپس لے رہے ہیں، اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاق اس کیس میں دفاع نہیں کرنا چاہتا۔
چیف جسٹس نے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ اب کیوں واپس لینا چاہتے ہیں، پہلے کہا گیا فیصلے میں غلطیاں ہیں، اب واپس لینے کی وجوہات تو بتائیں۔
اٹارنی جنرل نے مؤقف اپنایا کہ نظرثانی اپیل جب دائر کی گئی تو اس وقت حکومت اور تھی، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے تحریری درخواست کیوں دائر نہیں کی، وکیل پیمرا حافظ احسان نے کہا کہ میں بھی اپنی نظرثانی اپیل واپس لے رہا ہوں، چیف جسٹس نے کہا کہ کس کی ہدایات پر واپس لے رہے ہیں۔ دوران سماعت پی ٹی آئی نے بھی درخواست واپس لینے کی استدعا کر دی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پہلے کہا گیا تھا کہ فیصلہ غلطیوں سے بھرا پڑا ہے، اب کیا فیصلے میں غلطیاں ختم ہوگئیں، کیا نظرثانی درخواستیں واپس لینے کی کوئی وجہ ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جو اتھارٹی میں رہ چکے، وہ ٹی وی اور یوٹیوب پر تقاریر کرتے ہیں، کہا جاتا ہے ہمیں سنا نہیں گیا، اب ہم سننے کیلئے بیٹھے ہیں، آ کر بتائیں، ہم پیمرا کی درخواست زیر التواء رکھیں گے، کل کوئی یہ نہ کہے ہمیں سنا نہیں گیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالتی وقت ضائع کیا گیا ملک کو بھی پریشان کئے رکھا، اب آپ سب آ کر کہہ رہے ہیں کہ درخواستیں واپس لینی ہیں، ہم تو بیٹھے ہوئے تھے کہ شاید ہم سے فیصلے میں کوئی غلطی ہوگئی ہو۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ ملک صاحب آپ جیسے سینئر آدمی سے یہ توقع نہیں تھی، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا سارے اداروں نے یہ طے کر لیا ہے کہ جو فیصلے میں لکھا گیا وہ ٹھیک ہے، بنیادی حقوق کے تحفظ سے ہی ملک ترقی کر سکتا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم یہ درخواستیں زیر التواء رکھ لیتے ہیں، کسی نے کچھ کہنا ہے تو تحریری طور پر کہے، یہاں سب خاموش ہیں اور ٹی وی پر کہیں گے کہ ہمیں سنا نہیں گیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل آپ نے یہ سوال کیوں نہیں اٹھایا کہ نظرثانی درخواستیں پہلے کیوں نہ لگیں، الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ لکھیں کہ ہمیں حکم آیا تھا کہ نظرثانی درخواست دائر کرنی تھی، یہ بھی لکھیں کہ حکم کہاں سے آیا تھا، اگر آپ کہنا چاہتے ہیں کہ مٹی پاؤ، نظر انداز کرو تو وہ بھی لکھیں، 12 مئی کو کتنے لوگ مرے تھے، کیا ہوا، اس پر بھی مٹی پاؤ؟ یہ کہنا ٹھیک نہیں ہوتا نئی حکومت یا پرانی حکومت، حکومت حکومت ہی رہتی ہے پارٹی جو بھی ہو۔
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن بھی سابقہ یا موجودہ نہیں ہوتا، یہ ادارہ ہے، ہر ایک کا احتساب ہونا چاہیے، ہم خود سے شروع کر سکتے ہیں، سب سچ بولنے سے اتنا کیوں ڈر رہے ہیں، چند کے علاوہ باقی سب درخواستیں واپس لینا چاہتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کے فیصلے پر عملدرآمد ہی ہونا چاہیے، چیف جسٹس نے کہا کہ بڑی دلچسپ بات ہے جنہیں نظرثانی درخواست دائر کرنا چاہیے تھی، انہوں نے نہیں کی۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ بتائیں 2017 میں دھرنا کیسے ہوا، معاملات کیسے چل رہے تھے، ہم نے 12 مئی جیسے واقعات سے سبق نہیں سیکھا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ جھتے بازی کے رجحان کو آج بھی فروغ دے رہے ہیں، الیکشن کمیشن اگر دھرنا کیس فیصلے پر عملدآمد چاہتا ہے تو اپنے متعلقہ حصہ کا فیصلہ پڑھے، وکیل الیکشن کمیشن نے متعلقہ پیراگراف پڑھ دیا اس پر عملدآمد کہاں ہوا وہ بتائیں اسے ریکارڈ کا حصہ بنائیں۔
اٹارنی جنرل نے فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ پڑھ کر سنایا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اس دھرنے کے بعد کئی اور ایسے ہی واقعات سامنے آئے، اگر اس وقت اس فیصلہ پر عمل ہوتا تو بعد میں سنگین واقعات نہ ہوتے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم فیصلے میں دی گئی 17 ہدایات ہر عمل سے صحیح سمت میں چلیں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اللہ نے سورۃ توبہ کی آیت 19 میں سچے لوگوں کا ساتھ دینے کا کہا، آپ لوگوں نے فیصلے کو آج سچ مان لیا، اب آپ کا امتحان ہے کہ آپ ساتھ دیتے ہیں یا نہیں۔
سماعت کا حکمنامہ لکھواتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ابھی یہ درخواستیں نمٹا نہیں رہے، پی ٹی آئی نے کہا کہ ہم فیصلے کو درست مانتے ہیں نظرثانی نہیں چاہتے، علی ظفر صاحب کیا یہ درست ہے۔ علی ظفر نے کہا کہ جی درست ہے، ہم فیصلے کو چیلنج نہیں کر رہے۔
عدالت عظمیٰ نے کہا کہ جو وکلا آج پیش نہیں ہوئے، آئندہ سماعت پر حاضری یقینی بنائیں، عدالت نے کیس کی مزید سماعت یکم نومبر تک ملتوی کرتے ہوئے 27 اکتوبر تک فریقین کے وکلاء سے تحریری جواب طلب کر لئے۔
