میرا دشمن صاحب کردار ہونا چاہئے

فتح پر جشن منانا فاتح کا حق ہے اور اس پر کسی کو معترض بھی نہیں ہونا چاہئے ‘ اس لئے اگر پاکستان کرکٹ ٹیم کو ہرانے کے بعد نہ صرف کابل میں افغان ٹیم کی فتح پر جشن منایا گیا ‘ آتش بازی کی گئی ‘ بلکہ پشاور میں بھی افغانوں نے فائرنگ کرکے خوشی کا اظہار کیا تو اصولی طور پر اسے نہ غلط قرار دیاجا سکتا ہے نہ یہ کوئی قابل اعتراض بات ہے کیونکہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں جب بھی کوئی ٹیم جیت کر وکٹری سٹینڈ پر کھڑی ہوتی ہے تو وہاں قومی اورملکی سطح پر خوشی کاا ظہار کیا جانا فطری امر ہے ‘ تاہم اپنی جیت کو ہارنے والی ٹیم کے خلاف بغض وعناد کے بیانئے میں تبدیل کیا جائے تو نہ صرف یہ کھیلوں کے میدان میں رائج اصول سپورٹس مین سپرٹ کے حوالے سے قابل اعتراض ہے بلکہ کھیلوں کی اخلاقیات کے بھی صریح خلاف ہے ‘ کیونکہ ہار جیت کھیل کا حصہ ہے اور جب دو ٹیمیں میدان میں مد مقابل ہوتی ہیں تو لازماً ایک نے ہارنا اور دوسری نے جیتنا ہوتا ہے حالانکہ جب کرکٹ کا کھیل ابتداء میں پانچ روزہ ٹیسٹ یاتین روزہ میچ تک محدود تھا اور ون ڈے یا ففٹی ففٹی اور ازا ں بعدٹونٹی ٹونٹی سے اسے آشنائی نہیں ہوئی تھی تو اکثرمیچ ڈرا ہو جایا کرتے تھے ‘ جو کھیلوں کے عمومی ا صولوں کی نفی تھی یعنی کھیل کا مزہ تو ہار جیت میں ہی ہوتا ہے یہی وجہ ے کہ جرمنی کے نازی حکمران ہٹلر نے ایک بار جب پورے پانچ روز ٹیسٹ میچ کے میدان میں دو ٹیموں کو مد مقابل دیکھ کر آخر میں میچ ڈرا ہونے کی بات سنی تو ادھر ہی حکم جاری کر دیا کہ جرمنی میں آج کے بعد کرکٹ کھیلنے کی اجازت نہیں ہوگی کیونکہ پانچ دن ضائع کرکے بھی جب میچ کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے تو اس کھیل پر جرمن قوم کے پانچ قیمتی دن ضائع کرنے کا کوئی فائدہ ہے نہ جواز حالانکہ اس حکم ہٹلری کے وقت انہیں میر کا یہ شعر سنا دیا جاتا تو شاید وہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنے پر آمادہ ہوجاتے کہ
شکست و فتح نصیبوں سے ہے ولے اے میر
مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا
بات شکست و فتح کے حوالے سے چلی تھی سپورٹس مین سپرٹ کے عالمگیر اصولوں کے برعکس اپنی فتح پر جشن منانے کے اصولی موقف کو اگرشکست خوردہ ٹیم اور اس کے ملک و قوم کی تضحیک کا باعث بنا دیا جائے تو اس حرکت کو اخلاق کے اصولوں کے منافی قرار دینے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں رہ جاتا ‘ بدقسمتی سے دنیا کے دوسرے ممالک کے برعکس جہاں اپنی فتح کوجشن منانے تک ہی محدود رکھا جاتا ہے پاک بھارت مقابلوں کے نتائج کو جہاں نہ صرف جیتنے والا ملک جشن منانے کے لئے استعمال کرکے خوشی کا اظہار کرتا ہے بلکہ ہارنے والے کے خلاف اسے طنز و تشینع کے بیانئے سے بھی جوڑتا ہے اور یہ دونوں قوتوں کا بہت پرانا رویہ اور وتیرہ ہے (جواصولی طور پر قابل فخر بات نہیں ہے) جب کہ اب ایک اور ہمسائے افغانستان نے بھی یہی وتیرہ اختیار کرلیا ہے یعنی پیر 23 اکتوبر کو بھارت کے شہر چنئی میں ورلڈ کپ 2023ء میں افغانستان کی کرکٹ ٹیم نے اپنے اچھے کھیل سے پاکستان کی ٹیم کو شکست سے دوچار کیا تو اسے ایک بہت بڑا اپ سیٹ قرار دیا گیا ‘ کابل میں اس فتح کا جشن مناتے ہوئے آتشبازی کی گئی ہوائی فائرنگ کرکے خوشی کا اظہار کیاگیا’ جو افغان قوم کا حق تھا جس پر کسی کو اعتراض کی گنجائش نہیں ہے تاہم بقول شاعر مقطع میں آپڑی ہے سخن گسترانہ بات یعنی اس شکست و فتح کی سرحدات کے درمیان جو باریک سی لکیر ان دونوںکیفیات کوتقسیم کرتی دکھائی دیتی ہے اس کوبھی بعض افغانی کھلاڑیوں نے ”ڈیورنڈلائن” سمجھ کر اخلاقی اقدار پر کاری ضرب لگانے کی جو سعی کی ہے ‘ اس نے محولہ کھلاڑی اور اس کی سوچ سے اتفاق کرنے والے افغانوں کے ذہن و دل میں پلنے والے اس بغض کوسامنے لانے میں اہم کردار ادا کر دیا ہے جو وہ ایک عرصے سے اپنے کردار و عمل کا حصہ بنائے ہوئے ہیں ‘ پشتو میں ایک ضرب المثل ہے جس کے الفاظ کچھ یوں ہیں کہ ”دہ تبے دہ تاوا غگیدل” اس کو سمجھنے کے لئے یوں واضح کیا جا سکتا ہے کہ جب کوئی شخص بخار کی شدت میں مبتلا ہوتا ہے تو اس کے بدن پر لرزہ طاری ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ہذیان کی کیفیت سے بھی دو چار ہو جاتا ہے اور اسے اپنے الفاظ پر قابو نہیں رہتا ‘کچھ یہی کیفیت پاکستان میں گزشتہ تقریباً چار دہائیوں سے پناہ لینے ‘ یہاں کے معاشرتی اقدار کوتلپٹ کرنے ‘ پاکستان کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ حاصل کرکے (جس کی تصدیق اب سعودی عرب نے بھی جعلی پاسپورٹ والوں کی نشاندہی کرکے کردی ہے) جائیدادیں خریدنے ‘ ایک پائی ٹیکس ادا کئے بغیر تجارت اور معاش پر قبضہ جمانے والے افغانیوں کو بہ امر مجبوری پاکستان سے واپس چلے جانے(وہ بھی صرف غیر قانونی مقیم افراد) کا کہنے اور اس حوالے سے مزید کوئی رعایت نہ دینے کی وجہ سے جوغصہ ان افغان کھلاڑیوں کو ہے ‘ اس کا اظہار چنئی میں میچ جیتنے کے بعد افغان کھلاڑی ابراہیم زردان نے مین آف دی میچ ٹائٹل ہتھیا لینے کے بعد میدان ہی میں پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرکے کیا یہ کم ظرفی کی ایک ایسی مثال ہے جو شاید کہیں اور نظر نہ آسکے گزشتہ چار دہائیوں سے بھی زیادہ عرصے سے ان لاکھوں بن بلائے مہمانوں کوجس طرح انصار مدینہ کا کردار ادا کرتے ہوئے ہم نے اپنے سینے سے لگائے رکھا ‘ ان کی ہرطرح مدد کی ‘ اپنا رزق ان کے ساتھ بانٹا ‘ اس کے جواب میں انہوں نے مہاجرین بلکہ مکہ کاکردار ادا کرنے کے برعکس جو معاندانہ رویہ اختیار کرکے ہمارے معاشرتی اقدار کی بیخ کنی کی ‘ ہر قسم کے ہیر قانونی(بلکہ غیر اخلاقی) دھندوں سے ہمیں نقصان پہنچانے میں کوئی کسراٹھا نہ رکھی ‘ ہمارے اداروں کے اندرموجود گنتی کے چند بد عنوانوں کے ساتھ ”ساز باز” کرکے اور ان کی مٹھی گرم کرکے جعلی شناختی کارڈ بنوائے انہی کی بنیاد پر جعلی پاسپورٹ حاصل کئے اور دنیا بھر میں پاکستانی ہونے کے ناتے جوات مچائی اس بارے میں انہی کالموں میں کئی بار گزارشات کی جا چکی ہیں ‘ اور اب تو سعودی عرب نے بھی ان جعلی پاکستانی پاسپورٹوں کے حامل افراد کی نشاندہی کرکے ثابت کردیا ہے کہ یہ لوگ ہمارے احسانات کا بدلہ کس طرح چکاتے رہے ہیں اور اب جب تنگ آمد بہ جنگ آمد ‘ پانی سر سے اونچا ہوگیا اور(صرف)غیر قانونی مقیم افراد کوپاکستان سے چلے جانے کا کہہ دیاگیا ہے (قانونی طور پر مقیم افغانوں سے کوئی تعرض نہیں کیا جارہا) تو ان کے اندر کابغض اور عناد کھل کر سامنے آرہا ہے ‘ تاہم موقع ملتے ہی کھیل کے میدان کے بنیادی اصولوںکی بھی دھجیاں اڑاتے ہوئے اخلاقیات کے سارے اصول تج کرکے ایک معمولی جیت کو پاکستان کے خلاف اپنے اندر کے زہر کوباہر لانے کے لئے بہترین موقع سمجھ کر ہذیان بکنے پر تل جانے والے افغان کھلاڑی کو زیادہ خوش نہیں ہونا چاہئے ‘ اس لئے کہ یہ کھیل تو زندگی کا حصہ ہیں کبھی کوئی جیتتا ہے کبھی کوئی ‘ مگر ایک وقت کی جیت سے دائمی خوشی نہیں ملتی ابھی تو یہ دیکھنا ہے کہ فائنل کون جیتتا ہے اور ہار جیت کے اس منظر نامے میں آپ کہاں کھڑے دکھائی دیں گے جبکہ یہ دنیا کے آخری مقابلے نہیں ہیں یہ سلسلہ تو جاری رہے گا کل ہم آپ ممکن ہے پھر مقابل ہوں اور جیت کا پلڑہ دوسری جانب جھک جائے کہ بقول شخصے کبھی کے دن لمبے کبھی کی راتیں لمبی ہی رہتی ہیں۔بقول ڈاکٹر نذیر تبسم
یہ تماشا بھی سردربار ہونا چاہئے
اب مری جانب سے بھی انکار ہونا چاہئے
اس کی ذہنیت پہ مجھ کو اس لئے بھی دکھ ہوا
تہمتوں کابھی کوئی معیارہونا چاہئے
آپ جیسے دوست سے محتاط رہنے کے لئے
آدمی تھوڑا سا دشمن دار ہونا چاہئے
اس سے خود میرا قدوقامت کھلے گا دوستو
میرا دشمن صاحب کردار ہونا چاہئے

مزید پڑھیں:  تو چل میں آیا۔۔۔