editorial 2 4

بھارت اور طالبان

سوشل میڈیا پر طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ کے اس بیان کے بعد سے کہ طالبان بعد عیدالفطر بھارت میں جہاد کا عمل شروع کرنے والے ہیں اس بیان پر پوری دنیا کا ماتھا ٹھنکا ہے مگر اس نے جنوبی ہند میں ایک ہلچل مچا دی ہے، سننے میں آیا کہ بھارت میں بڑے اس خبر کے بعد سر جوڑ کر بیٹھ گئے جبکہ یوٹیوب پر ایک سرکاری ادارے کی حمایت کرنے والے ایک پرائیویٹ ٹی وی چینل نے ایسی خبر کو بے بنیاد قرار دیا ہے، اس ٹی وی چینل کا مؤقف ہے کہ طالبان کی جانب سے کہا گیا ہے کہ بھارت نے افغانستان میں ہمیشہ منفی انداز میں مداخلت کی ہے لیکن ان کی جانب سے بھارت کو کوئی دھمکی نہیں دی گئی، عوام کی جانب سے طالبان کی بھارت کو دھمکی بھارت کے ہندوتوا کی جانب سے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے ظلم ستم کے پس منظر میں دیکھا گیا ہے کیونکہ کرونا وائرس کی آڑ لیکر بھارت میں مودی کے پیروکاروں نے مسلمانوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے نہ تو ان کو کاروبار کرنے دیا جا رہا ہے نہ نوکری اور مزدوری کی اجازت دی جا رہی ہے اور نہ گھر سے باہر قدم رکھنے کی اجازت ہے حد تو یہ کر دی ہے کہ سوشل میڈیا پر ایسی ہولناک ویڈیوز بھی جاری ہوئیں جس میں دکھایا جا رہا ہے کہ کرونا پھیلانے کے جھوٹے الزامات لگا کر پولیس بھارتی فوج کی پناہ میں مسلمانوں کے گھروں میں گھس جاتی ہے اور اہل خانہ پر بے تحاشا تشدد کرتی ہے اہل خانہ نے بلک بلک کر روتے ہوئے بھارتی پولیس کی غنڈہ گردی کے واقعات سناتے ہوئے بتایا ہے کہ جب گھر کا دروازہ نہ کھولا جائے تو وہ توڑ کر گھس جاتے ہیں، آگے پولیس اہلکار ہوتے ہیں اور ان کی پشت پر اسلحہ بردار بھارتی فوجی ہوتے ہیں جو بلالحاظ معصوم بچوں اور بوڑھی خواتین کو تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔ بھارتی مسلمانوں کو ایسا بے یار ومددگار کر دیا گیا ہے کہ ان کا جیسے دنیا میں کوئی پرسان حال ہی نہیں رہا، ان حالات میں جب طالبان کی جانب سے بھارت میں جہاد کرنے کی خبر آئی تو اس کو اسی تناظر میں دیکھا گیا ہے مگر اس کیساتھ ہی حقیقت ہے کہ آزادی ہند کے بعد سے یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ بھارت نے افغانستان میں طالبان کے الزامات کے مطابق واقعی منفی انداز میں مداخلت کی ہے، سوویت یونین کی افغانستان میں مداخلت سے پہلے بھارت کا کردار یہ رہا ہے کہ افغانستان کے اپنے برادر وپڑوسی ممالک ترکی ایران بالخصوص پاکستان کیساتھ خوشگوار تعلقات قائم نہ ہوں پائیں، جب سوویت یونین نے افغانستان میں فوجی مداخلت کی تو ساری دنیا افغانستان کے عوام کیساتھ کھڑی ہو گئی لیکن اس موقع پر بھارت نے سوویت یونین کا ساتھ دیا سب سے زیادہ حیرت کی بات یہ رہی کہ جب امریکا نے اُسامہ بن لادن کی آڑ لے افغانستان پر چڑھائی کی تو بھارت نے طالبان کی مخالفت میں امریکا کا بھرپور ساتھ دیا اور اس کیساتھ ہی اس نے افغانستان میں خود کو مضبوط کرنے کیلئے اربوں روپے کی سرمایہ کاری کیساتھ ہی ساتھ طالبان کو کمزور کرنے کی سازشوں میں بھی ملوث رہا بھارت نے اپنی افغان پالیسی یہ رکھی کہ علاقہ میں افغان امور سے متعلق سارے فیصلے اس کی مرضی ومنشا کے سپرد کر دئیے جائیں چنانچہ جس وقت طالبان اور امریکا کے درمیان براہ راست بات چیت کا دور ہو رہا تھا اس وقت بھی بھارت بے کل ہوا جا رہا تھا یہ بات درست ہے کہ بھارت نے افغانستان میں سیاسی سطح پر تو اپنے لئے ایک مضبوط لابی تیار کر رکھی ہے لیکن عوامی سطح پر وہ پذیرائی حاصل نہیں کر سکا ہے کہ جس کی بنیاد پر وہ پاکستان کو خطے میںکوئی کردار ادا کرنے سے پیچھے دھکیل سکے، مودی حکومت نے مسلم دشمن پالیسی اختیار کر رکھی ہے اس میں وہ جگا ڈاکو کا کردار ادا کر رہی ہے،معاملہ بھارتی مسلمانوں یا کشمیری عوام کا نہیں ہے بلکہ بھارت کی داداگیری خطے میں پھیلتی جا رہی ہے، حال میں اس نے علاقائی تھانیداری مچاتے ہوئے نیپال کی زمین پر قبضہ جما لیا ہے جس پر نیپال کی سرکار کا ایک کل جماعتی اجلاس ہوا جس کے بعد نیپالی وزیر خارجہ پردیپ کمار گاہوائی نے کہا کہ وزیراعظم نیپال نے اس کو بتایا ہے کہ نیپال حکومت اپنے آباؤاجداد کی زمین کی حفاظت کرے گی، 2015 میں جب بھارت اور چین کے درمیان اس علاقے سے تجارت کرنے کا معاہدہ ہوا تھا تب بھی نیپال نے دونوں ممالک سے سرکاری سطح پر احتجاج کیا تھا یہاں نیپال اور بھارت کے درمیان مہاکالی ندی سرحدی حد ہے۔ بھارتی علاقائی پالیسیوں سے یہ نظر آتا ہے کہ اس نے دنیا کے طاقتور ممالک سے اپنی خارجہ پالیسی مضبوط کر رکھی ہے اور من چاہے اچھل کود وہ علاقے میں کرتا رہتا ہے، تاہم طالبان لیڈر ذبیح اللہ کے بیان سے بھارتی سورماؤں کی نیند اُڑ کر رہ گئی ہے، تازہ حالات کی روشنی میں امریکا نے بھی بھارت چہیتے کو مشورہ دیا ہے کہ وہ طالبان سے اپنے معاملات کو درست رکھنے کیلئے براہ راست مذاکرات کرے، لیکن اب تک مودی کو تھانیداری کے زمرے میں جو کامیابیاں ملی ہیں اس گھمنڈ میں وہ طالبان سے براہ راست مذاکرات کیلئے تیار نہیں ہے، کیونکہ اس نے دیکھ لیا ہے کہ طالبان نے وقت کی سب سے بڑی دنیاوی قوت سے جس طرح سر اُٹھا کر مذاکرات کئے ہیں اس کی تو ہمت بھی نہیں بندھ سکتی ہے تاہم طالبان کے نمائندے کی جانب سے بھارت کو فی الحال غیرمشروط مذاکرات کی دعوت دی گئی ہے لیکن مذاکرات میں افغانستان میں بھارت کی مداخلت کاری ہے، طالبان نے ایسے موقع پر بھارت کو مخاطب کیا ہے جو اس کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ ایسی صورتحال سے بھی دوچار ہوا جا سکتا ہے اور طالبان کی فہم وفراست نے بھارتی قیادت کے ہوش اُڑا دئیے ہیں۔

مزید پڑھیں:  معاہدہ سندھ طاس امن کا ستون یا آبی بم