غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کے انخلا کے بعدرجسٹرڈافغان مہاجرین کی وطن واپسی کی ڈیڈ لائن ختم ہونے میں بھی55دن باقی رہ گئے ہیں تاہم اس ڈیڈ لائن میں ممکنہ طور پر چھ مہینے کی توسیع کے بھی امکانات ہیں۔فی الوقت کارڈز اور دیگر دستاویزات کی چھان بین کا عمل جاری ہے جبکہ جعلی پاکستانی شناختی کارڈ بنانے والے افغان مہاجرین کیخلاف بھی گھیرا تنگ کر دیا گیا ہے اس سرگرمی میں جعلی پاکستانی شناختی کارڈ بنانے والے افغان تاجروں کی نشاندہی ہو چکی ہے اور ان کی گرفتاریوں کے بھی امکانات ہیں۔غیرقانونی طور پرمقیم افغان باشندوں کو واپس بجھوانے کاابتدائی مرحلہ کامیاب رہا اور مزید مراحل کے لئے ہونے والے اقدامات بھی اطمینان بخش ہیں لیکن اس میں جس ممکنہ توسیع کے امکانات ظاہر کئے جارہے ہیں وہ اپنی جگہ لیکن اس ممکنہ وقت کا ابھی امکان ظاہر کرنے سے 55دنوں کے اندر اس کام کی تکمیل میں رکاوٹ آسکتی ہے جس طرح ایک مقررہ مدت کے اندر ہر قیمت پر پہلامرحلہ مکمل کرلیاگیا اور اب بھی اس سلسلے میں کام جاری ہے اسی طرح اگلے مراحل کے حوالے سے سختی برت کر ہی مطلوبہ نتائج کی طرف مثبت پیش قدمی ممکن ہوسکے گی ۔ البتہ مقررہ مدت کے بعد بھی اس سلسلے کے جاری رکھنے کے امکان کو اس لئے رد نہیں کیا جا سکتا کہ یہ عناصر رضا کارانہ طور پر کسی بھی قیمت پرواپس جانے کے خواہاں نہیں طورخم اور چمن سرحدوں پر پاکستانی انتظامات اور اہلکاروں پر تنقید کرنے والوں کو خود ان کے اپنے ملک میں جن مشکلات سے روز اول ہی پالہ پڑا ہے اس کے بھی ویڈیو ز آنے شروع ہو گئے ہیں افغانستان واپس جانے والوں کے لئے ان کے ملک میں بہتر انتظامات کی خواہش کے ا ظہارکے باوجود اس حقیقت سے صرف نظر ممکن نہیں کہ اگرمزید اس طرح کی صورتحال پیش آجائے تو افغان باشندوں کی وطن واپسی کے عمل میں رکاوٹ اور سستی آسکتی ہے یہ افغان حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کے لئے بہتر انتظامات پر توجہ دے اور ان کی واپسی پر ان کو ہرممکن سہولتوںکی فراہمی یقینی بنائے۔ پاکستان میںموجود افغان باشندوں پر اب واضح ہو جانا چاہئے کہ آمدہ سال ان کی وطن واپسی کا سال ہے اور پاکستان اب مزید ان کی میزبانی کا متحمل نہیں ہوسکتا اس حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے وہ جتنا جلد رخت سفر باندھ لیں خود ان کے اپنے حق میں بہتر ہوگا۔
