گذشتہ ایک ماہ سے مُلکی حالات اور عوام کو درپیش مشکلات کے بارے لگاتار لکھنے کے بعد آج نیا کالم لکھنے بیٹھا تو معاً خیال آیا کہ دیگر عنوانات پہ کچھ لکھا جائے ۔انسانی زندگی کے معمولات اور جیتے جاگتے کردارہمیں روزانہ اپنی طرف متوجہ کیے رکھتے ہیں ، اہل قلم دوستوں کی بہت سی نئی کتابیں بھی موصول ہو چکی ہیں جن میں کئی اہم موضوعات مزید مکالمہ کرنے اور لکھنے کا تقاضا کرتے ہیں ۔ ایسے تمام قابل ذکر مواد کے باوجود کچھ مشاہیر ، بزرگوں اور احباب کی ذاتی ڈائریوں کے چند اوراق کسی طور میرے پاس محفوظ رہ گئے ہیں اور ان پہ لکھی ہوئی تحریر مجھے آمادہ کر رہی ہے کہ قارئین بھی اس کا مطالعہ کریں ۔ یوں کالم میں شامل کرکے ان چند اوراق کے کہیں تلف ہونے کا خدشہ بھی کم ہو جائے گا ۔
مولانا غلام رسول مہر بیک وقت اعلیٰ درجہ کے صحافی ، ادیب ، مورخ اور محقق تھے ۔ ان میں نام و نمود اور صلہ سے بے نیاز ہو کر کام کرنے کا وصف نمایاں تھا ۔ اُنہوں نے مختلف اوقات میں اپنے مضامین ، روزنامچہ ، خطوط اور انٹرویوز میں کتابِ زیست کی جھلکیاں پیش کی تھیں ۔ اُن کا ایک روزنامچہ کسی ایسی جگہ پڑا رہا کہ بیشتر حصہ ضائع ہو گیا اور چند صفحات ہی بچ رہے ۔ ایک صفحہ کی نقل برسوں پہلے کسی علم دوست نے عنایت کی تھی ، جو پیش خدمت ہے ۔ ” انسان کو بے تاب و نا صبور نہ ہونا چاہیے ۔ ایک انسان کی زندگی کا معاملہ ہی کیا حیثیت رکھ سکتا ہے کہ اس پر وقت اور توجہ صرف کی جائے ۔ ایسے امور اور حالات خدا پر چھوڑ دیں ۔ اگر کسی نے چند اچھے کلمے کہے تو ان کی عمر ہی کتنی ہے ، غیر مناسب الفاظ استعمال کیے تو وہ کب تک پائیدار و استوار رہیں گے ؟ اصل شے یہ ہے کہ جو کام پیش نظر ہے اسی پر توجہ جمی رہے ، وہ انجام پا جائے گا تو اس سے بڑی خوشی کوئی نہیں ہو سکتی ۔ مَیں ہمیشہ یہ کوشش کرتا رہا کہ اصل کام بہتر سے بہتر طریق پر انجام پائے ۔ قیامت کے روز ہم سے سوال ہو گا تو یہ کہ انسان ہونے کی حیثیت میں ہم اپنے فرائض و واجبات کس حد تک پورے کر سکے ۔ وہاں لوگوں کی ستائش و مذمت قطعاً کوئی معاملہ طے نہ کر سکے گی۔ جو ذاتِ پاک دلوں کے بھید جانتا ہے وہ کسی نا چیز بندے کے اعمال کا جائزہ لینے کے لیے دوسروں کی طرف سے گواہیوں کا محتاج نہیں ۔اگر انسان کا اپنا معاملہ صاف ہے تو کسی کی مذمت سے اس میں خلل نہ آئے گا اور اگر اپنا معاملہ صاف نہیں تو دنیا بھر کی ستائشوں کا انبار اصل فیصلے میں رائی کے برابر بھی اپنے حق میں نہ کرا سکے گا ۔ ” مصر سے تعلق رکھنے والے معروف ادیب نجیب محفوظ کی ابتدائی تعلیم مدرسے میں ہوئی اور پھر قاہرہ یونیورسٹی سے فلسفہ کی ڈگری لی ۔ اُنہیں ادب کا نوبل پرائز ملا ۔ اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں : ” میری تحریروں میں سات ہزار سالہ پرانی مصری تہذیب ہے اور ساتھ ہی چودہ سو برس پرانی اسلامی تہذیب بھی ہے ۔ آخناتون بادشاہ نے ایک قضیہ کا فیصلہ سنانے سے پہلے کہا تھا کہ میں سچ سننا چاہتا ہوں تا کہ انصاف کے ساتھ فیصلہ صادر ہو سکے ۔ بس میری تحریروں کی یہی اساس ہے ، میری خواہش ہے کہ بنی نوع انسان کے پاس سوچنے والا دماغ اور زندہ ضمیر موجود رہیں ۔ ہمارے اردگرد جو کچھ ہو رہا ہے ، اس کے باوجود میں آخری دم تک امید کا دامن پکڑے رہوں گا اور لکھتا رہوں گا ۔ ” انجنئیرنگ یونیورسٹی لاہور میں ہمارے ایک استاد پروفیسر ڈاکٹر قطب الدین احمد خان ہمیں الیکٹرانکس کا مضمون پڑھایا کرتے تھے ، اس سے قبل وہ آٹھ سال امریکہ میں بھی پڑھاتے رہے ۔ وہ کبھی کبھی ڈائری لکھا کرتے ، اُن کی ڈائری کے ایک صفحہ کی فوٹو کاپی جومیرے پاس ہے ، نقل کیے دیتا ہوں: ” صرف ان لوگوں کو بولنا یا لکھنا چاہیے جن کے پاس کہنے کو کچھ ہے ۔ ویسے تو ہر ایک یہی سمجھتا ہے اور مَیں بھی ان ہر ایک میں سے ہوں ۔ مگر یہ حقیقت نہیں ہے اگر لوگ بالکل ایک دوسرے کی طرح سوچتے ہیں تو وہ ایک دوسرے کی طرح ہی ہوتے ہیں اور ان کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہوتا ۔ ہماری آدھی شخصیت سب میں سے ہوتی ہے ، یعنی آدھے ہم اپنی ذات میں اور آدھے عام لوگوں کے توسط سے ۔ یوں ہر شخص ، غیر ذاتی طور پر خالی خولی ایک ہوتا ہے ۔ ہمیں ذاتی اندازِ نظر رکھنا چاہیے ۔ مَیں جو کچھ ہوں وہ دوسرے افراد کے ساتھ الجھاؤ اور تعصبات کے باعث ہوں ۔ یہی آپس کا کھنچاؤ اور فرق ہی ہمیں ذات میں انفرادیت بخشتا ہے ۔ ” قارئین کرام ! میرا سب سے چھوٹا بھائی سال 2007 میں سڑک کے ایک حادثہ میں ہمیں چھوڑ کر وہاں چلا گیا جہاں جانے والے واپس نہیں آتے ۔ میرے والد مرحوم نے اس کی پہلی برسی پر ذاتی ڈائری میں اپنی دلی کیفیت رقم کی ۔ والد کی ڈائری کا وہ صفحہ بھی یہاں نقل کیے دیتا ہوں : ” مجھے اپنی لمبی عمر پر افسوس اور رونا آتا ہے کہ پسرم شجاع اللہ ایک المناک حادثہ میں ہمیں چھوڑ کر خالق حقیقی سے جا ملا ۔ قبر میں سوئے اُسے ایک سال ہو چکا ہے ، اُس نے تو زندگی کی چالیس بہاریں بھی نہیں دیکھی تھیں جبکہ میری عمر ٨٠ سال سے آگے بڑھ چکی ہے ۔ یوں قبرستان میں لیٹے وہ مجھ سے سنئیر ہو گیا ہے ، کاش ایسا نہ ہوتا اور مجھے یہ دن دیکھنے نصیب نہ ہوتے ۔ اللہ جانے وہ مزید کتنا سنئیر ہوتا جائے گا ، یہ دل شکن اور کربناک قصہ حل طلب نہیں ۔ دوستوں اور عزیزوں کا روایتی صبر دینے کا درس کارگر ثابت نہیں ہو رہا ۔ یہ محض تسلی ہے ، حل یا مداوا نہیں بلکہ ایک مجبوری اور بے بسی ہے ۔ ہر آنے والا دن ایک بھاری پتھر کی مانند ہے ، یہ مَیں جانتا ہوں کہ اس پورے سال کے شب و روز کیسے گزر گئے ۔ شب و روز کا یہ چکر بیک وقت طویل بھی ہے اور مختصر بھی ۔فوتِ فرصت ِ ہستی کا غم یوں بھلا کب تک مٹتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ سے عاجزانہ دُعا ہے کہ وہ کسی شخص کو اتنی لمبی عمر بھی عطا نہ کرے کہ اس کے پیارے بیٹے جدا ہو کر سنئیر بن جائیں ۔
کیا کروں صبر کہ اب صبر کا یارا کم ہے
اب فقط شور مچاتی ہوئی تنہائی ہے
