مفاہمانہ سیاست کی طرف پیشرفت

اخباری ا طلاعات کے مطابق مسلم لیگ (ن) نے الیکشن رولز طے کرنے کے لئے تمام سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارمز پر اکٹھا کرنے کا فیصلہ کیا ہے، پارٹی رہنمائوں کی تجویز پر سیاسی جماعتوں سے رابطوں کا فیصلہ بھی کیاگیا۔مسلم لیگ نون کے قائد نواز شریف نے سینیٹر اسحاق ڈار کو سیاسی جماعتوں سے رابطے کرنے کی ذمہ داری سونپی اور ایک کمیٹی قائم کردی ،کمیٹی کے دیگر اراکین میں رانا ثنا اللہ، خواجہ سعد رفیق، ایاز صادق اور دیگر رہنما شامل ہیں۔ لیگی قائدین پاکستان پیپلزپارٹی، جمعیت علمائے اسلام کی قیادت سے رابطے کریں گے۔ اس کے علاوہ مسلم لیگ( ق)، ایم کیو ایم اور استحکام پاکستان پارٹی، سندھ و بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں، خیبرپختونخوا کی عوامی نیشنل پارٹی سمیت دیگر جماعتوں سے بھی رابطے کئے جائیں گے۔ پاکستان تحریک انصاف کی دستیاب قیادت سے بھی رابطے کا عندیہ دیاگیا۔دریں اثناء مسلم لیگ( ن) کے کیمپوں سے آنے والی مصالحتی سیاست کی آوازوں سے متعلق تحریک انصاف کے سیکرٹری اطلاعات کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف ایسی کسی بھی کوشش کا خیرمقدم کرے گی۔ اور ہمیں کوئی ایسا دعوت نامہ ملتا ہے تو ہم یقینا اس پر مشاورت کریں گے اور اس کا مثبت جواب دیں گے۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ مختلف سیاسی جماعتیں بات چیت کے لیے آمادہ ہیں کیونکہ آگے کا راستہ بات چیت سے ہی نکلتا ہے۔قبل ازیں تحریک انصاف کا ایک وفد قائد عمران خان کی مشاورت اور ہدایت پر جے یو آئی کے قائد سے ملاقات کر چکا ہے جس میںملکی سیاست میںمفاہمت کے لئے کردار ادا کرنے کے لئے جے یو آئی کے قائد نے عندیہ دیا جس سے قطع نظر ملک میں مفاہمت کی سیاست کا واضح پیغام نواز شریف نے وطن واپسی کے بعداپنے پہلے خطاب میں دیا تھا۔ مسلم لیگ نون کے باضابطہ اجلاس میں اس ضمن میں مزید مشاورت اور سیاسی جماعتوں سے مفاہمانہ بات چیت کے لئے سینئر رہنمائوںکی کمیٹی کی تشکیل ملکی سیاست میں اہم پیش رفت ہے کمیٹی کے بیشتر سینئر اراکین پہلے ہی مفاہمت کی سیاست کی وکالت کرتے آئے ہیں دیگر سیاسی جماعتوں کے درمیان پی ڈی ایم کی صورت میں اور اتحادی حکومت میں ساتھ رہنے سمیت میثاق جمہوریت کی صورت میں ایک دستاویز بھی موجودہے اور سرد و گرم چشیدہ سیاستدان اس بات سے بخوبی واقف ہیں اور ان کو بار بار اس امر کا تجربہ ہو چکا ہے کہ تصادم کی سیاست سیاستدانوں اور اہل سیاست کے لئے کبھی مثبت ثابت نہیں ہوا اور اس کا فائدہ غیر جمہوری قوتوں ہی نے اٹھایا ہے اور جب تک خود سیاستدان اپنے ہاتھوں شعوری طور پر باب بند نہیں کریں گے اس وقت تک تاریخ اپنے آپ کو دہراتی رہے گی۔ سیاستدانوں میں مختلف معاملات پر اختلافات کوئی معیوب بات نہیں اختلافات کے باوجود معاملات کو آگے بڑھانے اورمتضاد موقف کے باوجود معاملات کو آگے بڑھانے اور موقف میں لچک پیدا کرکے کسی مشترکہ اورمتفقہ فارمولے پر پہنچنا سیاست اور جمہوریت کا حسن کہلاتاہے اس وقت بھی ملک میں بعض معاملات پراختلافات ہی نہیں بلکہ بعض معاملات پر کھل کرتنقید بھی ہو رہی ہے اور مطالبات بھی ہو رہے ہیں ایسے میں وسیع ترملکی مفاہمت میں کردار کے لئے سیاسی جماعتوں اور اس کے قائدین ہی کو سلسلہ جنبانی کرکے معاملات کوآگے بڑھانے کے لئے راستہ تلاش کرنے کی ذمہ داری خود ہی نبھانا ہوگی۔ملک کی موجودہ صورتحال میں نہ صرف انتخابات کا شفاف انعقاد اور ساری سیاسی جماعتوں کویکساں موقع دینے کی ضرورت ہے بلکہ صرف یہی کافی نہیں ہوگا بلکہ ملک میں سیاسی مفاہمت اور قومی سطح کی مفاہمت کے قیام کی بھی ضرورت ہے تاکہ انتخابات کے بعد جوبھی جماعت برسراقتدار آئے اس کے پاس قوم کا حقیقی مینڈیٹ ہی نہ ہو بلکہ اسے قومی سطح پر تسلیم بھی کیا جائے تاکہ وہ اعتماد کے ساتھ مفاہمت کی فضا میں سیاسی انتشار اور دبائو سے بالاتر ہو کرملک کوموجودہ حالات سے نکال سکے اور عوام کے مسائل بھی حل ہوں۔سیاستدانوں کے درمیان جب تک چپقلش رہے گی اس کا فائدہ دیگر اٹھائیں گے یہ کوئی راز کی بات نہیں لمحہ موجود میں تحریک انصاف کے ساتھ جوکچھ ہو رہا ہے وہ کوئی پوشیدہ امر نہیں بہرحال تحریک انصاف کے مرکزی ترجمان کا بیان خوش آئند ہے اس ضمن میں اب مزید پیشرفت کی فضاء پیدا کرنے کے لئے تمام سیاسی جماعتوں کو اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کی ضرورت ہے ابتلاء کا شکار اس جماعت سے رابطہ اور حالات سے نکلنے کا راستہ بھی مفاہمت کی سیاست ہی میں تلاش کرنا خود پی ٹی آئی کے حق میں بہتر ہوگا۔ تحریک انصاف کی قیادت ماضی کے رویے کے برعکس رویے کا مظاہرہ کرکے رواداری کی فضاء میں معاملات طے کرنے اور خاص طور پر انتخابی عمل پر تحفظات و خدشات کو دور کرنے کے لئے متفقہ ضابطہ اخلاق کی تیاری اور اس پرعمل پیرا ہونا وقت کی ضرورت ہے جس کا ہر جانب سے احساس اور ادراک ہونا ضروری ہے ۔ تحریک انصاف کو بطور خاص اب ان کو احساس ہو جانا چاہئے کہ وہ طرز سیاست ہی ان کے کنارے لگنے کا باعث ہوئی تحریک انصاف اپنے طرز عمل پرسنجیدگی کے ساتھ نظر ثانی کرکے سیاسی جماعتوں سے مفاہمت شروع کرے تو اس کے نتیجے میں تحریک انصاف کی مشکلات سے واپسی کا نقطہ آغاز قرار دینے کی پوری گنجائش ہے باقی جماعتوں کے قائدیں گرم و سرد چشیدہ ہی نہیں مار گزیدہ بھی ہیں جن کو سیاست کا ادراک اور سیاسی طور طریقوں سے پوری واقفیت ہے ایسے میں جو ابتداء ہوئی ہے اور مفاہمت کا جو اولین پیغام نواز شریف کی طرف سے وسیع تر بنیادوں پر واضح اور صریح الفاظ میں جلسہ عام میں دیاگیا اس سے جوباب کھلیں گے اس سے مفاہمت کی پورے قد کے ساتھ سیاسی دنیا میں واپسی ممکن ہوگی جسے اس باب کو بند کرنے کا بھی باعث ہونا چاہئے جو غیر سیاسی کرداروں کا داخلہ روکنے کے قابل بن سکے۔

مزید پڑھیں:  صوبے میں شرح خواندگی کی تشویشناک حالت