نگراں وزیر داخلہ سینیٹر سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ پاکستان کا افغان حکومتوں سے تعلق اچھا نہیں رہا۔ سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے سرفراز بگٹی نے کہا کہ افغان شہریوں سے ہمارا بھائی چارہ ہے، جو قیامت تک جاری رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ کابل نے پاکستان بننے اور اسے تسلیم کرنے کی مخالفت کی تھی۔ افغانستان سے پہلے پاکستان کے خلاف پراکسی وار لڑی گئی، پڑوسی ملک میں خانہ جنگی نہیں، وہاں سے غیر ملکی جا چکے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ حکومت نے ان غیرملکیوں کو بھیجنے کا فیصلہ کیا جن کے پاس دستاویزات نہیں،یہ کارروائی افغانوں کے خلاف نہیں بلکہ غیر قانونی مقیم افراد کے خلاف ہے۔ سینیٹر سرفراز بگٹی نے یہ بھی کہا کہ کوئی شخص بغیر ویزہ کے افغانستان جا کر دکھا دے، افغان شہری یہاں کاروبار کرنا چاہتے ہیں تو ویزا لیں اور آجائیں۔نگران وزیر داخلہ نے افغانستان کے حوالے سے جن امور کا تذکرہ کیا ہے وہ تاریخی حقیقت ہے جب تک پاکستان کے حوالے سے کابل اس طرح کی پالیسیوں کا تسلسل جاری رکھتا رہے گا دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں بہتری کی توقع نہیں کی جا سکتی طالبان حکومت کے قیام کے موقع پرتوقع تھی کہ ماضی کودفن کر دیا جائے گا لیکن افسوسناک حقیقت یہ سامنے آئی کہ نہ صرف اسے باقی رکھا گیا ہے بلکہ اس میں کچھ اور بھی شدت آگئی ہے ۔ جہاں تک غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کی واپسی کے عمل کاسوال ہے ایسا کرنا پاکستان کی ریاستی مجبوری کاتقاضا بن گیا ہے چالیس سال سے زائد عرصے تک میزبان ملک کی مشکلات کا بجائے احساس کرنے کے اس عمل کو افغانستان کی جانب سے اظہار نفرت کا ذریعہ بنانا پختون روایات کے منافی اور ا خلاقی اقدار سے انحراف ہے بجائے اس کے کہ افغانستان حکومتی سطح پر اس مسئلے کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے وطن واپس جانے والوں کی آباد کاری پر توجہ دے ان کو بے یارومددگار چھوڑ کرذمہ داری پاکستان کے سرتھوپنے اور الزام تراشی کی نامناسب فضا پیدا کی جارہی ہے بہرحال اس عمل کو ہر قیمت پر مکمل کرنا پاکستان کے لئے ناگزیر ہے بہتر ہوگا کہ اس عمل کی خوش ا سلوبی سے تکمیل کے لئے افغان حکومت بھی اپنی ذمہ داریاں پوری کرے اور معاندانہ رویہ ا پنانے سے گریز کیا جائے۔
