اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کی سزا کالعدم قرار دیتے ہوئے انہیں مقدمے سے بری کردیاعدالت نے لکھا پراسیکیوشن کے مؤقف کو ثابت کرنے کے لیے کوئی ایک ڈاکیومنٹ موجود نہیں۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے کہاکہ آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ ریفرنس دائر کرنا آپ کی مجبوری تھی؟ ہم سمجھ رہے ہیں ریفرنس دائر کرنا نیب کی مجبوری تھی، ریفرنس دائر ہوگیا سزا بھی ہوگئی۔ ایون فیلڈ کیس میں جو کچھ ہوا وہ انصاف کا مذاق تھا اور گزشتہ برسوں میں اس کیس کو شریف خاندان کے خلاف جارحانہ مہم کے ایک حصے کے طور پر دیکھا گیا۔ایون فیلڈ قانونی کہانی سیاسی سازشوں، قانونی جانچ پڑتال اور عوامی بحث کا مرکز بن چکی تھی۔ اس معاملے کا مرکز نواز شریف اور ان کے خاندان کی لندن کے اعلیٰ درجے کے ایون فیلڈ ہائوس میں لگژری اپارٹمنٹس کی ملکیت تھا، اس کیس کے دور رس اثرات مرتب ہوئے اس فیصلے کے نتیجے میں نواز شریف کو عوامی عہدہ رکھنے سے نااہل قرار دیا گیا، جو پاکستان کے سیاسی منظر نامے پراثرانداز ہوا۔دوسری جانبپی ٹی آئی رہنما سینیٹر علی ظفر نے کہا ہے کہ 2دسمبر کو انٹراپارٹی الیکشن کرائیں گے،چیئرمین پی ٹی آئی الیکشن نہیں لڑ رہے ، بیرسٹرعلی گوہرکو نگران چیئرمین پی ٹی آئی کے امیدوار کیلئے نامزد کیا گیا ہے ۔بیرسٹرعلی ظفر نے کہاکہ جب تک توشہ خانہ کیس کا فیصلہ نہیں ہوتا چیئرمین انٹراپارٹی الیکشن نہیں لڑ رہے اگرچہ معاملات عدالت میں ہیں اور عدالتی راہداریوں ہی سے ہو کر 2018ء کے معتوب محبوبیت کے راستے پر نظر آتے ہیں اور 2018ء کے محبوب عتاب کی زد میں ہیں سیاسی مقدمات اور نیب کا اس کے لئے استعمال کوئی نئی بات نہیں بہرحال سابق وزیراعظم نواز شریف اب مقدمات سے نکلنے کی آخری سیڑھی پرہیں اورسابق وزیراعظم عمران خان یکے بعد دیگرے مقدمات کا سامنا کریں گے اور اسی باعث ان کو تحریک انصاف کے چیئرمین کی نشست کی بھی قربانی دینی پڑی یاد رہے کہ پارٹی کو حال ہی میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بتایا تھا کہ اگر اس نے انٹرا پارٹی انتخابات جلد نہ کروائے تو وہ اپنا من پسند”بلے”انتخابی نشان کھو دے گی اور اسی تناظر میں پی ٹی آئی کو اس کے متبادل کے لیے بات کرنے پر مجبور کیا گیا۔عمران خان کے لیے چیئرمین شپ کوئی آسان قربانی نہیں ہوگی، لیکن اگر یہ یقینی بناتا ہے کہ پی ٹی آئی کا جہاز اس وقت تک چلتا رہے گا جب تک کہ اسے مزید سازگار ہوائیں نہیں ملیں گی، تو یہ اس تناظرمیںاس فیصلے کی افادیت نظر آتی ہے بہرحال اس کا اندازہ آگے چل کر ہی ہو گا قطع نظر اس کے مائنس عمران خان کی پی ٹی آئی کیسے ہو گی اور اس کے متوقع نئے چیئرمین کو تحریک انصاف کی قیادت کس حد تک قبول کرے گی البتہ کارکنوں کی جانب سے اسے بہرحال قائد کے نامزد شخص کے طور پر قبول کیاجائے گا اس کے بعد ٹکٹوں کی تقسیم کامرحلہ بہرحال مشکل وقت کی صورت میں سامنے آئے گا ایک قانونی ضرورت اور بلے کے نشان پر انتخابات لڑنے کے لئے اسیر چیئرمین تحریک انصاف کے پاس فیصلے کا موزوں طریقہ یہی تھا جسے اختیار کیاگیاسوائے اس سوال کے کہ قرعہ ایک ایسے شخص کے نام کیوں نکالا جو سال قبل ہی تحریک انصاف میں آئے تھے قبل ازیں وہ پیپلز پارٹی کاحصہ ہوتے ہوئے انتخاب بھی لڑ چکے تھے بہرحال اسیرچیئرمین پی ٹی آئی نے ہر قیمت پر انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کرکے مخالفین کے لئے میدان خالی نہ چھوڑ کر جوچیلنج قبول کیا ہے اس کی سیاسی قیمت اپنے عہدے سے علیحدگی تو ہے لیکن بہرحال پی ٹی آئی کا نام عمران خان اور عمران خان کا نام پی ٹی آئی ہے قبل ازیں مسلم لیگ نون بھی ابتلاء کے اس دور سے گزر چکی ہے اور اس کے رہنمائوں نے استقامت کا مظاہرہ کیا ہے جس کی پی ٹی آئی تقلید کرنے میں کامیاب ہوئی تو یہ ان کی سیاست میں واپسی کا نقطہ آغاز ثابت ہوگا اس وقت تحریک کو انتشار کی کیفیت سے بچنا اور بچانا بڑی اہمیت کا حامل معاملہ ہے ۔جہاں تک مسلم لیگ نون کے قائد کے مقدمات کا سوال ہے سیاسی مقدمات کا قیام اور اس ضمن میں باقی معاملات کا اسی طرح طے ہونا روایت رہی ہے اور سوائے ایک آدھ مقدمے کے استثنیٰ کے ساتھ تحریک انصاف کے قائد کے مقدمات میں بھی تاریخ کا اپنے آپ کو دہرانااچھنبے کی بات نہ ہو گی۔ملکی سیاست میں اتار چڑھائو اورجوار بھاٹاسے قطع نظر نیب اور دیگر سرکاری اداروں کا سیاسی استحصال کے لئے استعمال وہ پریشان کن معاملہ ہے جو ختم ہونے کو نہیں آرہا یکے بعد دیگرے سیاستدانوں کو ایک طرح کی تنگ گلی میں ہانکا جاتا ہے اور مرضی کی منزل کی طرف ان کوجانے پر مجبور کیا جاتاہے ۔ عمران خان کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک ہویا نواز شریف کی واپسی کا پھر چیئرمین پی ٹی آئی اور ان کی جماعت کے اہم رہنمائوں کے خلاف مقدمات ہر بار حالات بدلنے پراپنے ہی لکھے ہوئے کو مٹانے کا عمل اور اس کا تسلسل ملک میں جمہوری استحکام پارلیمانی نظام کے مضبوط ہونے اور پالیسیوں کے تسلسل کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے اب تو اس عدم استحکام اور میوزیکل چیئر کے کھیل کے باعث عالمی مالیاتی ادارے اور غیرملکی سرمایہ کار بھی اعتماد کرنے پرتیار نہیں اور ان کو مختلف قسم کی ضمانت درکار ہوتی ہے کیا اس کے باوجود سیاست، انتقام اور دیگر معاملات کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا جب تک ایسا نہیں ہوتا ملکی معاملات میں بہتری اور عوام کی مشکلات ،مستحکم حکومت، فعال پارلیمان اورملک وقوم کے مفاد کے فیصلے سبھی کے معلق رہنے ہی کا خدشہ ہے جس کی ابتداء ہر بار معلق پارلیمنٹ اورحکومت سے ہوتی ہے ۔