arif bahar

او آئی سی لیگ آف نیشنز کے انجام کی طرف؟

وزیراعظم عمران خان ڈاکٹر مہاتیر محمد کی دعوت پر ملائیشیا کا دو روزہ دورہ کرکے آگئے۔ اب رواں ماہ ترک صدر رجب طیب اردگان پاکستان آنے والے ہیں اور یہاں وہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں گے۔ اُدھر ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کا ایک اہم اور معنی خیز بیان سامنے آیا ہے جس میں بھارت کو واضح پیغام دیا گیا کہ کشمیر اُمت مسلمہ کا مسئلہ ہے۔ ملائیشیا، ترکی اور ایران وہ تین ممالک تھے جنہوں نے پانچ اگست کے بعد ہر مصلحت کو جوتی کی نوک پر رکھ کر کشمیر پر بھارتی اقدامات کی مذمت اور کشمیری عوام اور پاکستان کی مکمل حمایت کی۔ ترکی اور ملائیشیا کو اپنے اس موقف کی خاصی معاشی قیمت بھی چکانا پڑی۔ بھارت نے ملائیشیا کیساتھ پام آئل کے معاہدات منسوخ کردئیے جبکہ ترکی سے کچھ دفاعی متوقع معاہدات منسوخ کر دئیے۔ اس کے باجود مہاتیر محمد اور طیب اردگان نے اپنا موقف بدلنے سے قطعی انکار کردیا۔ ایران اور بھارت کے تعلقات پچھلی دہائیوں سے غیرمعمولی حد مضبوط ہو چکے ہیں مگر اس کے باوجود ایران نے بیان کی حد ہی سہی مگرکشمیریوں کی حمایت میں آواز بلند کی۔ چین کے بعد اس بھری دنیا میں پانچ اگست کے بعد جن ملکوں نے پاکستان کا کھل کر ساتھ دیا اور نہ صرف پاکستان بلکہ کشمیریوں کو احساسِ تنہائی کا شکار ہونے سے بچایا وہ ترکی ملائیشیا ہی تھے۔ ترکی ایران اور ملائیشیا ہی مسلمان دنیا کے ممالک تھے جنہوں نے پاکستان کیساتھ ملکر مسلمانوں کو درپیش مسائل اور چیلنجز کا جائزہ لینے کیلئے ملائیشیا کانفرنس کا انعقاد کیا۔ مہاتیر محمد اس کانفرنس کے میزبان جبکہ باقی تین ملک مہمان تھے۔ کانفرنس سے چند دن قبل وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی خلیجی ملکوں کے دورے پر گئے۔ کچھ قیاس آرائیاں اور سرگوشیاں ہوئیں عمران خان کی طیب اردگان کیساتھ ملاقات ہوئی اور پاکستان نے نہایت پراسرار انداز میں کانفرنس میں شرکت سے معذرت کر دی۔ یہ وہ وقت تھا جب کوالالمپور کے در ودیوار دوسرے راہنماؤں کیساتھ ساتھ عمران خان کی تصویروں سے مزین ہو چکے تھے۔ پاکستان نے کانفرنس میں عدم شرکت کی وجہ تو ظاہر نہیں کی مگر طیب اردگان نے راز طشت ازبام کر دیا۔ انہوں نے عرب ملکوں کی پاکستان کو دی جانے والی دھمکیوں کی بات کرکے پاکستان کو سُبکی سے بچالیا۔ عمران خان کیلئے ملائیشیا کانفرنس سے باہر رہنا ایک مشکل ترین فیصلہ تھا کیونکہ اس خواب میں وہ پوری طرح مہاتیر اور اردگان کے شریک تھے مگر معاشی مجبوریاں قوموں اور افراد کو کہیں کا نہیں چھوڑتیں۔ یہاں ہم من حیث القوم اپنی معاشی تنگ دستی کی زد میں آچکے تھے۔ حکومت کے اس فیصلے کو خوب ہدف تنقید بنایا گیا اور یہ خدشات ظاہر کئے جانے لگے کہ اب ملائیشیا اور ترکی کیساتھ پاکستان کے تعلقات خرابی کی راہ پر چلنے لگیں گے مگر اردگان اور مہاتیر محمد نے خود کو عظیم مدبر اور پاکستان دوست راہنما ثابت کیا۔ انہوں نے وقتی طور پر اپنی انا کو لگنے والے زخم کو بھول بھلا کر پاکستان کی معاشی مجبوریوں کو سمجھا اور دوستی کی دیوار میں دراڑ نہ آنے دی۔ قدآور اور مدبرین کا یہی شیوہ ہوتا ہے کہ ان کی نظریں مستقبل اور آنے والی نسلوں اور حالات پر ہوتی ہے۔ اب وزیراعظم عمران خان کے دورہ ملائیشیا اور ترک صدر کی پاکستان آمد نے تعلقات کی خرابی کی تمام قیاس آرائیوں کو غلط ثابت کیا۔ ملائیشیا کے دورے میں کئی اہم تجارتی معاہدات ہوئے ترک صدر کی آمد کے موقع پر بہت سے معاہدات متوقع ہیں۔ ان ممالک میں تجارتی مفادات سے زیادہ اس وقت نظریات کی یکسانیت اور ہم خیالی ربط وتعلق کی مشترکہ بنیاد ہے۔ یہ ممالک مسلمانوں کو درپیش مسائل پر ایک موقف کے حامل ہیں۔ اب عمران خان نے مظفرآباد میں اپنے خطاب میں کہا کہ کچھ عرب ملکوں کو تاثر مل رہا تھا کہ ملائیشیا کانفرنس نے او آئی سی کو کمزور کرنے کی کوشش کی اسی وجہ سے ہم اس میں شریک نہیں ہوئے۔ اس سے پہلے وہ ملائیشیا میں یہ کہہ چکے تھے کہ انہیں کانفرنس میں شریک نہ ہونے پر افسوس ہے۔ او آئی سی کی موجودہ حیثیت وہی ہے جو اقوام متحدہ کی ہے جس پر مالی وسائل فراہم کرنے والے ایک یا چند ملکوں کا اثر ورسوخ ہے۔ مسلمانوں کے مسائل کے حل کیلئے بنائے گئے فورم کا حال یہ ہے کہ اس کے چلانے والے پاکستان سے بہ اہتمام یہ فرمائش کرتے ہیں کہ کشمیر کو اُمت مسلمہ کا مسئلہ نہ بنائیں۔ فلسطین ان کے پہلو میں ڈھلتے سورج کی طرح وقت کے اُفق کے پار چھپ رہا ہے مگر وہ بے بسی اور بے حسی کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔ ان حالات میں یہ نوشتہ دیوار ہے کہ او آئی سی عہدماضی کی لیگ آف نیشنز کے انجام سے دوچار ہورہی ہے۔ دوسری جنگ عظیم کو روکنے میں ناکامی کے بعد یہ تنظیم قصۂ پارینہ بن گئی تھی۔ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا، او آئی سی مسلمان دنیا کے مسائل سے لاتعلق رہنے اور نظریں چرانے کی روش پر گامزن رہے گی تو اس خلاء کو کسی نہ کسی نے پُر کرنا ہے۔ ایسی صورت میں او آئی سی کی رسم قل کا باقاعدہ اعلان نہ بھی ہو مگر انجام کچھ ایسا ہی ہوگا۔ مسلمان دنیا کو درپیش مسائل پر قلندرانہ ادا کیساتھ مصلحت اور خوف کو جھٹک کر آگے بڑھنے والے خود ہی مرکز نگاہ بنتے چلے جائیں گے۔

مزید پڑھیں:  نشستن و گفتن و برخاستن