4 96

خرگوش یتیم نہ ہو جائے کہیں

امریکہ میں جارج فلائیڈ کا سانحہ بپا ہونے سے پہلے اور شروع کے دنوں میں جب بات اتنی بگڑی نہ تھی، صدر ٹرمپ اور مائیک پومپیو، کورونا وائرس کی وبا کے سلسلے میں چین کی طرف ڈھکے چھپے اشارے کر رہے تھے۔ چین کے اخبارات میں جوابی وار کئے جا رہے تھے۔ ذہن میں بار بار تارڑ صاحب کا ناولٹ ‘فاختہ’ آ رہا تھا۔ جس میں فینسی ڈریس کی ایک رات، فاختہ اور خرگوش کی عقاب اور ریچھ کے ہاتھوں گت بنتے دیکھ کر ہاتھی کے ٹھٹھے لگانے پر ایک بے بس اژدہا بار بار پھنکارتا تھا کہ ایک بار میرے دانت نکلنے دو پھر دیکھنا۔
ساتھ ہی ساتھ سرد جنگ کے ابتدائی برس بھی ذہن میں آرہے تھے۔ میخائل گوربا چوف اور ڈونالڈ ٹرمپ کی شکلیں آپس میں گڈ مڈ ہو رہی تھیں۔ تاریخ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ اصل میں ہم جسے تاریخ کہتے ہیں وہ انسانی سماج کا ماضی ہے اور انسان ارتقا کی جن منزلوں پر دو ہزار سال پہلے پہنچا، ان سے ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھا۔
انسانی ذہن وہی ہے جو ازمنہ وسطی میں تھا۔ انسان کے خوف، اس کے توہمات، اس کے نظرئیے، اس کی ترجیہات، سب کی سب زیادہ نہیں بدلیں۔ نوآبادیاتی دور کے بعد سرد جنگ ہوئی اور اس جنگ کے خاتمے پر امریکہ واحد سپر پاور بن کے ایک احمق ارنے بھینسے کی طرح دنیا میں دندناتا رہا۔ نیو ورلڈ آرڈر کیا تھا، ہماری نسل خوب بھگت چکی ہے۔ اپنے آنگن میں پرائی جنگ میں اپنی تین نسلیں جھونک کے اب بھی نہ سمجھتے تو کب سمجھتے؟
امریکی آئین کی پہلی ترمیم یا فرسٹ امینڈمنٹ کے تحت ملک بھر میں ہر فرد کو اظہار خیال، مذہب اور جمع ہونے کے حوالے سے آزادی ہے۔
گذشتہ برس ری پبلیکن پارٹی کے سینیٹرز نے ایوان بالا میں ایک قرار داد پیش کی تھی جس میں ‘اینٹی فا’ کو ‘مقامی دہشت گرد’ قرار دینے کا مطالبہ تھا۔ جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے بعد شروع ہونے والے مظاہرے شروع میں پر امن تھے اور ان میں جارج فلائیڈ اور حال میں دیگر اسی نوعیت کے واقعات کے خلاف احتجاج کیا گیا۔ وقت کے ساتھ لوگوں کا غصہ بڑھتا گیا مگر یہ واضح نہیں ہے کہ کب اور کیسے یہ احتجاج ہنگاموں میں بدل گئے۔ لیکن حالیہ دنوں میں حکام کی جانب سے سنگین نوعیت کے الزامات لگائے گئے ہیں مگر ان کی جانب سے کوئی ثبوت نہیں دئیے گئے۔
امریکہ میں نسل پرستانہ رویہ اور اس روئیے کیخلاف احتجاج کی ایک پوری تاریخ ہے لیکن آج وہاں جس قسم کے پرتشدد مظاہرے نظر آرہے ہیں ان کی نظیر کم ہی ملتی ہے۔ جمہوری نظام میں احتجاج بھی ہوتا ہے اور حکومت اپنی رٹ قائم رکھنے کی کوشش بھی کرتی ہے مگر دونوں طرف سے توازن اگر ذرا بھی بگڑ جائے تو صورتحال خانہ جنگی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ ایسی مثال ہمیں پاکستان میں بنگال کی تحریک آزادی میں نظر آتی ہے اور ذرا مزید پیچھے جائیں تو ہندوستان کی تحریک آزادی میں مسلمانوں اور ہندوؤں کا آٹھ سو سال ساتھ رہ کر اچانک ایک دوسرے سے شدید متنفر ہو جانا۔ یہ ذرا بڑی مثالیں ہیں، کم درجے پر ایوب خان کیخلاف طلبا تحریک میں تشدد کا عنصر اور اس تحریک کی کامیابی دیکھ لیجئے۔ فوجی آمر اور فوجی حکومتوں کو سالہا سال بھگتنے والے بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ پس پردہ کون تھا اور کیا تھا۔ خیر، یہ تو سب مفروضے ہیں جن کی بنیاد، ظاہر ہے مشاہدے اور گزرے ہوئے واقعات اور موجودہ عالمی صورتحال ہے۔ یہ درست بھی ہو سکتے ہیں اور غلط بھی لیکن ایک بات حقیقت ہے اور وہ یہ کہ کوئی بھی قوم بلاوجہ دنیا پر راج نہیں کرتی۔ وہ قومیں جن کا بچہ بچہ اپنے حقوق کیلئے آواز بلند کرنا جانتا ہو، وہی فاتح عالم اور سپرپاورز بنتی ہیں۔ سانحہ ساہیوال اس سے کہیں زیادہ دردناک واقعہ تھا۔ زہرہ شاہ کی تشدد سے موت دل ہلا دینے والا سانحہ ہے مگر سوائے سوشل میڈیا پر چند دبی دبی آوازوں کے کوئی آواز نہ اُٹھی۔ ہاں ہم بھی باہر نکلتے ہیں، وبا کے ان دنوں میں جان ہتھیلی پر رکھ کے مگر لان کا نیا جوڑا لینے، دوست سے ملنے، رات کو یوں ہی گھومنے اور چھپ چھپا کے کسی شادی میں شریک ہونے۔ یہ بھی کچھ برا نہیں، زندگی کسی نہ کسی طور تو بسر کرنی ہے۔ تارڑ صاحب کا ناولٹ پھر یاد آگیا۔ اس میں خرگوش جب بھی عقاب کو فاختہ سے چھیڑخانی پر کچھ کہنے کی کوشش کرتا تھا، اسے گاجر پیش کر دی جاتی تھی۔ وہ اپنے کان سیدھے کرتا تھا اور مونچھیں ہلا ہلا کر گاجر کھاتا تھا۔
خرگوش کو اس ساری صورتحال میں یہ ہی کرنا چاہئے تھا مگر وہ ایک بات بھول گیا تھا کہ گاجروں کی لت لگ جانے کے بعد اگر کسی دن خدانخواستہ اژدہا کے دانت نکل آئے یا عقاب ہی کو کوئی ناگہانی پیش آگئی تو کیا ہوگا؟ خرگوش بے چارہ تو یتیم ہو جائے گا۔

مزید پڑھیں:  بجلی چوری۔۔۔ وفاق اور خیبر پختونخوا میں قضیہ ؟