5 97

کورونا زندگی کا پہیہ نہیں روک سکتا

کورونا وائرس سے جو ممالک بری طرح متاثر ہوئے تھے اور ان میں لاک ڈاؤن یعنی کاروبار زندگی کو معطل کرنا ہی اس کا واحد علاج تصور کیا گیا تھا۔ یہ سب ممالک اب اس اُلجھن سے باہر نکل رہے ہیں۔ زندگی تو حرکت کا نام ہے اس کا پہیہ چلتا رہتا ہے، کبھی نہیں رکا، رکے گا تو قیامت آجائے گی۔ قیامت کب آئے گی؟ اس کا علم اس کائنات کو بنانے والے کے سوا اور کسی کے پاس نہیں ہے۔ ہم لوگ تو زندگی گزارنے کے مکلف ہیں، زندگی ختم کرنے کا اختیار نہیں رکھتے۔ چنانچہ کورونا سے متاثر ممالک میں جو لاک ڈاؤن ہوا تھا وہ بتدریج ختم ہورہا ہے اور معمولاتِ زندگی بحال ہو رہے ہیں۔ پاکستان بھی ان ملکوں میں شامل ہے جہاں لاک ڈاؤن کا بہت چرچا تھا، سرکاری ونجی دفاتر تعلیمی ادارے، کاروباری مراکز، بازار روڈ ٹرانسپورٹ، ٹرینیں اور پروازیں بند کردی گئی تھیں۔ مساجد میں بھی لوگوں کے داخلے پر پابندی تھی، نماز جمعہ کے اجتماعات کو خاص طور پر روکا جارہا تھا۔ رمضان المبارک کے دوران بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ تاہم عید سے دو تین دن پہلے حکومت نے لاک ڈاؤن مشروط طور پر ختم کرنے کا اعلان کردیا۔ شرط یہی تھی کہ لوگ ایس او پیز کی پابندی کریں، سماجی فاصلہ برقرار رکھیں، ماسک پہنیں، مصافحہ کرنے سے گریز کریں، بازاروں میں رش نہ ہونے دیں، دکاندار تمام احتیاطی تدابیر بروئے کار لائیں لیکن ہوا یہ کہ جونہی پابندی ہٹا دی گئی لوگ سیلابی ریلے کی طرح بازار میں آگئے، عورتیں چھوٹے بچوں کو گود میں اُٹھائے اور بڑوں کی اُنگلیاں تھامے دکانوں پر ٹوٹ پڑیں اور دو تین دنوں میں اتنی شاپنگ کی کہ سال بھر کی خریداری کا ریکارڈ ٹوٹ گیا۔ پھر عید بھی دھڑلے سے منائی۔
اب اگرچہ کہا جارہا ہے کہ کورونا کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے اور اموات بھی بڑھ رہی ہیں لیکن زندگی کا جو پہیہ ایک وقفے کے بعد چل پڑا ہے اسے روکا نہیں جاسکتا۔ چنانچہ ٹرینیں چل پڑی ہیں، پبلک ٹرانسپورٹ سڑکوں پر آگئی ہے، اندرون ملک جہازوں کی آمد ورفت تو پہلے ہی شروع ہوگئی تھی اب بین الاقوامی پروازیں بھی آجا رہی ہیں، دفاتر کھل رہے ہیں، کارخانوں اور فیکٹریوں میں کام شروع ہوگیا ہے۔ مرکزی حکومت نے وفاق کے زیرانتظام تعلیمی ادارے کھولنے کا اعلان کردیا ہے، البتہ صوبائی حکومتیں اس سلسلے میں تذبذب کا شکار ہیں۔ تعلیم کا شعبہ بھی اُٹھارویں ترمیم کے تحت صوبوں کے اختیار میں آگیا ہے اور صوبائی حکومتیں اس سلسلے میں من مانی کررہی ہیں۔ قومی سطح پر کسی مربوط تعلیمی پالیسی کا وجود نظر نہیں آتا۔ پورے ملک میں تعلیمی اداروں کی بندش سے اصل نقصان پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے خواتین ومرد اساتذہ کا ہوتا ہے انہیں تین ماہ سے تنخواہ نہیں ملی اور ان کے گھروں میں فاقے کی نوبت آگئی ہے جبکہ سرکاری تعلیمی اداروں کے عملے کو صوبائی حکومتیں باقاعدگی سے تنخواہ دے رہی ہیں اور ان اساتذہ کو کسی پریشانی کا سامنا نہیں ہے۔ برطانیہ کورونا سے بہت زیادہ متاثر ہوا ہے لیکن وہاں تعلیمی ادارے کھول دئیے گئے ہیں۔ آسٹریلیا میں بھی تعلیم کا کاروان چل پڑا ہے، دیگر یورپی ملکوں سے بھی یہی اطلاعات آرہی ہیں، پاکستان زیادہ عرصے تک تعلیم سے بے اعتنائی نہیں برت سکتا۔ صوبائی حکومتوں کو بھی ایس او پیز کی پابندی کیساتھ تعلیمی ادارے کھول دینے چاہئیں۔
کورونا نے وزیراعظم عمران خان کیلئے سیاسی میدان بھی کھلا چھوڑ دیا ہے۔ انہیں فی الحال کسی چیلنج کا سامنا نہیں ہے، آصف زرداری بیمار ہیں اور آئے دن ان کے بارے میں افواہیں اُڑتی رہتی ہیں، بلاول جو عمران خان کو سلیکٹڈ وزیراعظم کہتے نہیں تھکتے تھے ان دنوں بالکل خاموش ہیں۔ نیب نے شہباز شریف کے گرد گھیرا مزید تنگ کردیا ہے۔ مریم نواز بھی خاموش رہنے میں ہی اپنی عافیت سمجھ رہی ہیں۔ احسن اقبال، سعد رفیق، خواجہ آصف اور رانا ثنا اللہ نے بھی چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے۔ ایسے میں راوی عمران خان کے حق میں چین ہی چین لکھ رہا ہے۔ وہ اس خاموشی سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے کم ازکم اپنی چارپائی کے نیچے تو ڈانگ پھیر سکتے ہیں اور ان خوشامدیوں سے پیچھا چھڑا سکتے ہیں جو عوام میں ان کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں لیکن ہمارے دوست کہتے ہیں کہ عمران خان ایسا بھی نہیں کرسکیں گے۔ سیاست کی اس سرد بازاری میں میاں نواز شریف کی ایک اور تصویر نے تھوڑی سی ہلچل مچادی ہے۔ وہ لندن کے ایک ریستوران میں دو خواتین کے ہمراہ چہرے پر ماسک لگائے چائے یا کافی کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ یہ تصویر پاکستانی میڈیا تک کیسے پہنچی؟ بعض دوستوں کا کہنا ہے کہ میاں صاحب نے خود یہ تصویر ریلیز کروائی ہے تا کہ میڈیا میں ان کی موجودگی برقرار رہے اور وہ زیربحث آتے رہیں جیسا کہ شاعر نے کہا ہے
بدنام جو ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا؟
میاں صاحب کی صحت کے حوالے سے جو ہرزہ سرائی ہونی تھی ہوچکی اب انہیں کوئی فکر نہیں ہے۔ انہوں نے اپنے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان کو بھی پاکستان واپس بھیج دیا ہے جو ان کیساتھ ہی لندن گئے تھے اور وہاں سے ہر دوسرے تیسرے دن میاں صاحب کی صحت کے بارے میں بلیٹن جاری کیا کرتے تھے پھر آہستہ آہستہ یہ سلسلہ منقطع ہوگیا، میاں صاحب نے بھی زیادہ تکلف نہ کیا۔ کہا جارہا تھا کہ وہ دل کے مریض ہیں اور کسی وقت بھی ان کا آپریشن ہوسکتا ہے لیکن کورونا نے ان کی یہ مشکل بھی حل کردی ہے اب جب تک کورونا ہے وہ ہر قسم کے علاج معالج سے آزاد ہوگئے ہیں اور لندن میں بیٹھے عمران خان کے سینے پر مونگ دلتے رہیں گے۔
(بشکریہ جسارت)

مزید پڑھیں:  ''ظلم دیکھ کر چپ رہنا بھی ظلم ہے''