صوبائی دارالحکومت پشاور سمیت صوبہ بھر میں دودھ کے 93 فیصد نمونے غیر تسلی بخش قرار دینے کے حوالے سے ذرائع ابلاغ پر سامنے آنیوالی خبریں یقینا تشویشناک ہیں ،جبکہ ملاوٹی دودھ کے حوالے سے پشاور سر فہرست ہے،417 نمونوں میں پانی، 106 میں گلوکوز، 17 میں نارمل ڈی ہائیڈ،224 میں فیٹس اور 488 میں پروٹین کی کمی، 18.8 میں خشک پاؤڈر، 15.7 میں سکروز، 4.1 میں نمک اور 1.3 فیصد میںملاوٹ کا انکشاف کیا گیا ہے، امر واقعہ یہ ہے کہ دودھ انسانی ضرورت کی بنیادی حیثیت رکھتا ہے، جس سے آگے دہی، پنیر وغیرہ بھی تیار کیا جاتا ہے ،جبکہ گرمی کے دنوں میں دودھ اور دودھ سے بنی مزید اشیائے خوراک بنائی جاتی ہیں ،مگر یہ انتہائی بد قسمتی کی بات ہے کہ کچھ سالوں سے دودھ میں ماضی کی طرح صرف پانی استعمال کر کے زیادہ کمائی کرنے کے برعکس اب مصنوعی طور پر ناقص، مضر صحت بلکہ انتہائی خطرناک بیماریوں سے مزین دودھ کھلے عام اور دھڑلے سے بازار میں فروخت کیا جاتا ہے، لوگوں نے گھروں میں جانور پالنے کی بجائے دودھ بنانے کی فیکٹریاں قائم کر رکھی ہیں، جہاں دن رات کیمیکل ملے دودھ کی منوں ٹنوں کے حساب سے تیاری محاورے کے مطابق ہینگ لگے نہ پھٹکڑی رنگ چوکھاآئے ،کے مصداق ،بالکل عام سی بات ہے، یہ مضر صحت دودھ بازار میں فروخت کیلئے لا کر عوام میں خطرناک بیماریاں بانٹی جاتی ہیں اور روزانہ لاکھوں روپے عوام کی جیبوں سے نکالے جاتے ہیں ،متعلقہ محکمے کے کار پر دازان بھی اس صورتحال کا تدارک اور علاج کرتے کرتے اب عاجز آ چکے ہیں، کیونکہ اکثر چھاپوں کے دوران منوں ٹنوں کے حساب سے یہ ناقص دودھ ضائع کرنے کی خبریں بھی سامنے آ جاتی ہیں ،مگر یہ دھندا کسی طور ختم ہونے ہی میں نہیں آتا ،اور بعض اطلاعات کے مطابق اس مضر صحت دودھ کی ” مسلسل پر داخت” مبینہ طور پر بغیر متعلقہ اداروں کے اندر موجود بعض کالی بھیڑوں کی آشیرباد کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے، اب اس سلسلے میں عوام کی صحت کی محافظ صرف اللہ کی ذات ہی رہ جاتی ہے، جبکہ خدا سے خوف کے بغیر یہ دھندا شاید ہی رک سکے، مگر خوف خدا تو معاشرے میں کم ہی رہ گیا ہے، پھر بھی امید پر دنیا قائم ہے اور ممکن ہے کہ عوام کو دودھ کے نام پر زہر پلانے والوں کا احساس ہو ہی جائے کہ وہ اللہ کے عذاب کو آواز دینے سے توبہ کریں جبکہ متعلقہ حکام بھی اپنی ذمہ داری کا احساس کر کے اس مکروہ دھندے کے آگے بند باندھیں اور عوام کی جان و مال کا تحفظ کرنے کیلئے اقدام اٹھائیں۔
