حماس کے قائد کی شہادت ، چند سوالات

اس وقت جبکہ حماس کے شہید سربراہ سپرد خاک بھی کئے جا چکے لیکن ان کی شہادت کا واقعہ کیسے رونما ہوا انہیں کیسے تاک کر نشانہ بنایا گیا اور وہ کیا ذریعہ تھا جس کا استعمال ہوا اس حوالے سے ہنوز مختلف قسم کی اطلاعات آرہی ہیں اور اطلاعات میں تضادات کے باعث اس امر کا درست تعین بھی نہیں ہو سکا ہے کہ دراصل واقعہ رونما کیسے ہوا تھا اس حوالے سے جامع و مستند معلومات اور طریقہ کار کا علم ہونے کے بعد ہی اس کا توڑ اور آئندہ کے لئے حفاظتی اقدامات ممکن ہوں گے بہرحال اس واقعے کے بعد خطرات میں اس حد تک اضافہ ہو گیا ہے کہ اب طاغوتی قوتوں سے برسر پیکار مختلف قیادت کے لئے ہر جگہ میدان جنگ اور پر خطر ہے اور کسی بھی وقت کہیں بھی شہادت عظمیٰ کا رتبہ مل سکتا ہے ایسے میں یہ بہادروں ہی کا کام ہے کہ وہ سر ہتھیلی پر لئے پھریں غزہ میں سوفیصد ایسا ہی ہو رہا ہے امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے دعویٰ کیا ہے کہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت تہران کے گیسٹ ہائوس میں پہلے سے نصب ریموٹ کنٹرول بم سے ہوئی۔ بم دو ماہ قبل اہم ترین عمارت میں سمگل کیا گیا تھا۔ امریکی جرید ے کے مطابق بم کو ریموٹ کنٹرول سے اس وقت پھاڑا گیا جب اسماعیل ہنیہ کی اپنے کمرے میں موجودگی کنفرم ہوئی۔ رپورٹ کے مطابق بم کو گیسٹ ہائوس میں کیسے پہنچایا گیا، یہ ابھی واضح نہیں ہے لیکن اسماعیل ہنیہ کے قتل کی پلاننگ اور کمپائونڈ کی نگرانی بظاہرکئی ماہ تک کی گئی جبکہ اسرائیلی دفاعی مبصرین نے دعویٰ کیا ہے کہ صہیونی ریاست نے حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو جدید گائیڈڈ میزائل سے نشانہ بنایا جسے اسرائیلی اسلحہ ساز کمپنی رافیل نے تیار کیا ہے۔اسرائیلی مبصرین کے مطابق اسپائک این ایل او ایس جدید ترین اسرائیلی گائیڈڈ میزائل ہے جو ناصرف اپنے ہدف تک غیر معمولی رفتار سے پہنچتا ہے بلکہ اپنے فضائی راستے اور ہدف کی ویڈیو بھی ریئل ٹائم جاری کرتا ہے۔عموما ٹینکس کو تباہ کرنے کے لیے استعمال ہونے والا یہ میزائل الیکٹرو آپٹیکل سینسرز کی مدد سے اپنے ہدف کو تلاش کرتا ہے۔اسپائک این ایل او ایس میزائل پچاس کلومیٹر سے ڈھائی ہزار کلومیٹر تک بھی اپنے ہدف تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور زمینی نظام سے لانچ کیے جانے پر میزائل کی رینج20میل ہے۔جدید میزائل سسٹم بیک وقت چار میزائلوں کو لانچ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جو اس وقت اسرائیلی افواج کے زیر استعمال ہیں جبکہ میزائل کو ڈرونز اور دوسرے طیاروں کے ذریعے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ پاسداران انقلاب اور ایرانی کی دیگر خفیہ ایجنسیاں یہ پتا نہیں لگا سکیں کہ اسماعیل ہنیہ کو تہران کی اس حساس بلڈنگ میں کس نے اور کس طرح نشانہ بنایا۔ اس واقعے کی تحقیقات اس کے اسباب و علل کا معلوم کیا جانا اوراس کی روشنی میں آئندہ کے لئے احتیاط اور حفاظتی تدابیر اختیار کئے جانے کی ضرورت اب پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے نیز جہادی قیادت کو اب خود حفاظتی اقدامات پر کہیں زیادہ نظر ثانی اور احتیاط کی ضرورت ہو گی بہرحال یہ ایک نیا چیلنج ہے جس کے مزید اثرات مرتب ہوں گے حماس سربراہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے چونکا دینے والے واقعے نے پورے مشرقِ وسطی کو غیریقینی کی صورت حال میں دھکیل دیا ہے جبکہ علاقائی انتشار کے خطرات میں بھی مزید اضافہ ہوا ہے۔اگرچہ اسرائیل نے اس اشتعال انگیز فعل کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے لیکن یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ان کے قتل کا ذمہ دار کون ہے۔ اسماعیل ہنیہ کے قتل سے چند گھنٹے پہلے اسرائیل نے لبنان کے دارالحکومت بیروت میں بھی بمباری کی تھی جس میں حزب اللہ کے اعلی کمانڈر کو نشانہ بنایا گیا تھا۔یہ حقیقت ہے کہ اسرائیل گزشتہ10ماہ سے غزہ میں حماس کو کچلنے میں ناکام ہوا ہے اور اسی بوکھلاہٹ میں بنیامن نیتن یاہو مشرق وسطی کے دیگر ممالک جیسے شام، لبنان اور ایران کی خودمختاری میں مداخلت کررہے ہیں۔ اگرچہ امن کے تمام راستے تیزی سے بند ہو رہے ہیں جبکہ اس بحران سے باہر نکلنے کا واحد راستہ غزہ میں جاری قتل و غارت کو فوری طور پر روکنا ہے۔لیکن دنیا بھر کی اپیلوں اور مذمت کے باوجود اسرائیل امریکی پشت پناہی کے باعث مسلسل تخریب امن اقدامات جاری رکھے ہوئے ہے تازہ واقعہ اس کی بدترین مثال ہے اس سنگین واقعے کے تہران کی جانب سے جواب دینے کا جو برملا اعلان کیاگیا ہے اور ایران میں انتقام کی علامت سرخ پرچم لہرا دیاگیا ہے اس سے مشرق وسطیٰ کا امن ہی خطرے میں نہیںپڑا ہے بلکہ عالمی جنگ چھڑنے کے خطرات میں مزیداضافہ ہو گیا ہے اس موقع پرامت مسلمہ اور بالخصوص خلیجی ممالک کو اسرائیل کے حوالے سے اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنے پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے ہوش کے ناخن نہ لئے گئے تو ان کی باری بھی زیادہ دور نہیں اسرائیل کے حوالے سے پاکستان سے وابستہ توقعات کا تو عملی طور پر خون ہو چکا اب ایران ہی واحد ملک رہ گیا ہے جواسرائیلی جارحیت کے سامنے ڈٹ کر رکھڑا ہے جسے اکیلا نہ چھوڑا گیا تو اسرائیل کی نابودی کا سورج جلد طلوع ہوگا۔

مزید پڑھیں:  پارلیمنٹ پر'' حملہ''؟