جامع تحقیقات کی ضرورت

رشوت و بدعنوانی کے بدترین واقعات اور کہانیاں تو خلاف معمول نہیں لیکن اس طرح کے واقعات سے تو سر مزید شرم سے جھک جاتا ہے قبل ازیں افواہیں تھیں کہ عطیہ میں ملنے والی گاڑیوں اور خاص طور پر پراجیکٹ کے اختتام پر حکومت کے حوالے سے ہونے والی گاڑیوں کو قاعدے کے مطابق دستاویزات بنا کر تحویل میں نہیں لی جاتی بلکہ بغیر مستند ریکارڈ کے تحویل میں لے کر خورد برد کی جاتی ہیں اس الزام کی حقیقت بہرحال قابل تحقیق ہے تازہ خبر گاڑیوں کی نشستوں کی فروخت سے متعلق ہے محکمہ صحت نے یو ایس ایڈ پراجیکٹ کی ایمبولینس گاڑیوں کی نشستیں مارکیٹ سے انتہائی کم ریٹ پر فروخت کرنے کی شکایات پر انکوائری تشکیل دے دی ہے اس سلسلے میں گذشتہ روز انکوائری کا اعلامیہ جاری کردیا گیا ہے ذرائع نے بتایا کہ یو ایس ایڈ کی جانب سے ایک پراجیکٹ شروع کیا ہے جس کے لئے ایمبولینس گاڑیاں عطیہ کی گئی ہیں تاہم بعد ازاں شکایات موصول ہوئیں کہ ان گاڑیوں کی نشستیں کم نرخ پر فروخت کی گئیں ہے حالانکہ مارکیٹ میں ایک، ایک نشست کی قیمت اڑھائی لاکھ روپے سے زائد تھی ان شکایات کا جائزہ لینے کے لئے محکمہ صحت نے سپیشل سیکرٹری بجٹ اینڈڈویلپمنٹ ہیلتھ کی سربراہی میں فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی تشکیل دے دی ہے اگرچہ تحقیقاتی کمیٹی بنا کر کاغذات کا پیٹ بھر نے اور ضابطے کی کارروائی کی تکمیل کا عمل شروع کردیا گیا ہے لیکن لگتا نہیں کہ ذمہ دار عناصر کا احتساب ہو گا وزیر اعلیٰ کو چاہئے کہ وہ محولہ دونوں الزامات کی جامع تحققات کسی ایسی کمیٹی اور محکمے سے کروائیں جو صحت کے محکمے کے ماتحت نہ ہو محکمہ صحت کا صرف ایک نمائندہ شامل ہو باقی کمیٹی کے ارکان عدلیہ ، پولیس اور انسددادرشوت ستانی کے محکموں سے لئے جائیں تاکہ ممکنہ طور پر اثر انداز ہونے کا امکان کم ہو اور کمیٹی آزادانہ تحقیقات کرکے اس شرمناک واقعے کے ذمہ داروں کا تعین کرکے سزا تجویز کرے جس پر عملدرآمد یقینی بنائی جائے ۔

مزید پڑھیں:  دبی چنگاری