پی ٹی آئی اورجے یو آئی

بہت پرانی بات نہیں بلکہ ابھی ماضی قریب میں متحدہ مجلس عمل کے نام سے ایک اتحاد بنا تھا جسے تجربہ گاہ (میرا مطلب ہے صوبہ خیبر پختونخوا ) میں پورے پانچ سال کے لئے حکومت بھی دی گئی ان کی حکومت میںکوئی مائی کالال مخالفت نہیں کرسکا کوئی کسی قسم کا انتشار نہیں پھیلاسکا اور وفاق سے بھی پوری پوری حمایت اور ہمدردی حاصل رہی۔ اور یہ بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے اس وطن میں سیاست میں کوئی بات حرف ِ آخر نہیں ہوتی ،کون کب کس سیاسی جماعت کے ساتھ اتحاد کرے گا اور کوئی سیاسی دشمنی دیرینہ نہیں ہوتی ۔سیاست میں مخالف کے ساتھ ساتھ حمایت کی کوئی وجہ ہونی بھی ضروری نہیں۔ ایک ہی وقت میں کسی ایک صوبہ میں اتحاد کرکے حکومت میں بیٹھ سکتے ہیں اور عین اسی وقت وفاق میں اختلاف کرتے رہنا بھی سیاست ہی ہے۔ اس کی ایک تازہ مثال گزشتہ دنوں تین سینیٹرز کاانتخاب ہے کہ جو برملا کہہ رہے ہیں کہ ہمیں ساری سیاسی جماعتوں نے ووٹ دے کر سینٹر منتخب کیا ہے۔ ان امیدوار کی جیت میں نہ صرف برسراقتدارسیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل تھی دوسری طرف اپوزیشن کی پارٹیوں نے بھی انہیں اپنا آشیر باد دے کر سینٹ میں بھیجاہے۔ جس کی دھوم میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا میں بھی بھرپور ہورہی ہے۔ یہ بات بھی بہت پرانی نہیں جب کہ وفاق میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت تھی اور وزیر اعظم عمران خان نیازی نے پرویز خٹک کو اختیار دیا تھا کہ وہ حکومت کی جانب سے مولانا فضل الرحمن کے ساتھ مذاکرات کرکے انہیں منائیں تاہم مولانا صاحب نے مذاکرات سے پہلے ہی شرط رکھی تھی کہ دوبارہ الیکشن کے بغیر کوئی مذاکرات نہیں مانیں گے۔
اب کی بار پھر مولانافضل الرحمن صاحب شب وروز مصروف ہیں اور اپوزیشن جماعتوں کے عہدیداروں سے مل رہے ہیں اور پرعزم ہیں کہ اپوزیشن اور بالخصوص تحریک انصاف ان کا ساتھ دینے کے لئے راضی ہوجائے گی۔ ایک بار پھر ڈی چوک اسلام آباد میں جماعت اسلامی کا دھرنہ ہے اور پی ٹی آئی اس کی حمایت کا اعلان کرچکی ہے۔ اب مولانا کب اور کیسے اس مارچ یا دھرنا کا حصہ بنیں گے یہ بات طے ہونا باقی ہے ۔ ماضی میں ہونے والے اس طرح کے دھرنے بھی بظاہر یہ مارچ مہنگائی کے خلاف اور عوام کے وسیع تر مفاد میں ہے لیکن اندرخانے سب جانتے ہیں کہ یہ اقتدار کی رسہ کشی ہے ۔مولانا گزشتہ کئی دھائیوں تک حکومت میں براہ راست یا کسی نہ کسی طور اقتدار کے مزے لوٹتے رہے ہیں اب بھی وہ کسی طور موجودہ حکومت کے ساتھ حصہ دار بننے کے خواہش مندہیں اور ان کے لئے یہ قلابازی بھی کوئی بڑی بات نہیں کیونکہ ماضی میں جب مولانا فضل الرحمن اپوزیشن میں تھے تو لوگ یہ بھی کہہ رہے تھے کہ یہ اپوزیشن خود جنرل کی بی ٹیم ہے جو حکومت کا مزہ لیتے ہوئے بوقتِ ضرورت اپوزیشن کا کردار ادا کرتے رہے ۔وہ اپوزیشن جو کہ تہہ در تہہ لاجواب’ بحیثیتِ اپوزیشن آپس میں بھی کسی ایک بات پر بھی متفق نہیںتھے ان دنوں مرحوم قاضی حسیں احمد مسلسل تمام اسمبلیوں سے استعفے دینا چاہتے ہیں تو مولانا فضل الرحمن صاحب اس کو دیوانے کا خواب قرار دیتے رہے کیونکہ اندر خانے حکومتی لیگ اور انکے مفادات ایک تھے ‘ یعنی حصولِ اقتدار۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ انکی حکومت کم اپوزیشن جنرل پرویز مشرف کے ہی مرہونِ منت تھی اور جیسے ہی جنرل کو ناراض کیا اور انکے بنے بناے سیٹ اپ کو اپ سیٹ کیا تو بھنچال تو آے گا ہی’طوفان بھی اٹھے گا نقصان ہو گا تو صرف اور صرف مولانا کا ۔ جنرل تو جنرل ہے ہر حال میں اقتدار اس کو ہی ملے گا اور اس کے لیے اے اور بی ٹیم بنانا’ حکومت یااپوزیشن بنانا کچھ دشوار نہیں۔
آج کی اپوزیشن پارٹیاں جیسے ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھی ہیں ماضی میں بھی یہ اے آر ڈی کے نام سے ملتی رہیں۔ اے آر ڈی دراصل نام تھا سیاسی پارٹیوں اور لیڈروں کے ٹو لے کا،اس اتحاد کا اصل مقصدیہ رہا کہ ایک پارٹی اقدار کھونے کے بعد اس پلیٹ فارم کا حصہ بن کر دوسری صاحب اقتدار پارٹی کی ٹانگیں کھینچنے میں لگ جاتی ۔ یہ پلیٹ فارم حکومت کے خلاف تحریکیں چلانے جلسے جلوس نکالنے کے لیے استعمال ہوتارہا ۔ نوے کی دھائی میں اسی طرح کے سیاسی ڈرامہ ہوتے رہے۔ مگر اپوزیشن کی ہر سیاسی پارٹی بلواسطہ یا بلاواسطہ’ بظاہر یا چور دروازہ سے اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات اسطوار کرنے میں لگی رہے۔ اپوزیشن کے پاس اپنا کوئی واضح موقف یا ایجنڈا نہیں تھا۔ تب بھی کبھی وہ شیطانی کارٹونوںکی مخالفت کا سہارا لے کر اور کبھی وکلا کے موقف کی حمایت کرنے کے بہانے عوام کو سڑکوں پر لانے کی کوشش کر تی رہیں اور اگر دیکھا جائے تو آج بھی ان پارٹیوں کے پاس کوئی واضح موقف یا ایجنڈا نہیں کہ عوام کو سڑکوں پر لایا جاسکے۔

مزید پڑھیں:  ماحولیاتی آلودگی کا سنگین مسئلہ