گرمی کی شدت سے تنگ آکر گلیات اور سوات کا چکر لگا آئے ۔ جو لوگ ان علاقوں میں ان دنوں گئے ہیں ۔ وہ اس بات کی گواہی دیں گے کہ ہزاروں کی تعداد میں سر کاری سبز نمبر پلیٹس لگیں گاڑیاں ان علاقوں میں موجود ہیں ۔ جہاں کوئی سرکاری دفتر نہیں ہے ۔ ان میں سے کسی کا کوئی سرکاری کام نہیں ہے ۔ دس بارہ جگہوں پر ہمیں ٹریفک کے رش میں پھنسے رہنے کا اتفاق ہوا ۔ ایک جگہ تو ڈیڑھ گھنٹے سے زیادہ رُکے رہے ۔ جتنی بھی سرکاری گاڑیاں تھیں سب اے سی چلا کر سٹارٹ رہیں ۔ جبکہ کسی بھی پرائیویٹ گاڑی کی یہ صورت نہیں دیکھی ۔ یہ جو لاکھوں کی تعداد میں لوگ ان سرکاری گاڑیوں اور سرکاری تیل کے استعمال سے ان علاقوں میں جارہے ہیں ۔ کیا ان سے کوئی پوچھ سکتا ہے کہ اس مقروض ملک اور صوبہ میں جہاں قرضے لیکر گزار ا ہورہا ہے ۔ وہاں کے سرکاری اہلکار یہ عیاشیاں کیسے کررہے ہیں ۔ ایک جگہ ہم کھانے کے لیے رُکے تو وہاں پہلے سے دس پندرہ سرکاری گاڑیاں کھڑی تھیں ۔ وہاں موجود لوگ سرکاری افسران بھی نہیں تھے بلکہ ان افسران کے رشتے دار تھے ۔ یہ اس ملک میں ہورہا ہے جہاں کے پرائمری سکولوں میں پڑھنے والے بچوں میں سے چالیس فیصد کو چھت میسر نہیں ہے ۔ جہاں غربت کی شرح پچاس فیصد سے بڑھ چکی ہے ۔ جہاں کے بیشتر آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے ۔ جس کے ستر فیصد حصے میں بجلی تین گھنٹے کے لیے بھی دستیاب نہیں ہوتی ۔ یہ جو مہنگائی اس ملک میں آرہی اس کی اور کوئی وجہ نہیں ہے ۔ سرکاری اخراجات اور کرپشن بڑھ گئی ہے اور ان اشرافیہ کی شاہ خرچیوں کے لیے ملک میں ہر شے پر ٹیکس لگانا پڑرہا ہے ۔ یہ ملک کیسے چلے گا، جہاں چار ہزار میگا واٹ بجلی لے کر ادائیگی تیرہ ہزار میگاواٹ کی کی جاتی ہے ۔ گولین گول پاورپراجیکٹ کی 108 میگا واٹ بجلی کی سپلائی لائن خراب کرکے گزشتہ ایک برس سے اربوں روپے کی سستی ترین بجلی ضائع کردی گئی اور یہ عمل جاری ہے ۔ یہی حال نیلم جہلم ہائیڈرو پاور کے ساتھ جاری ہے ۔ ہزاروں ارب روپے اپنے فرنٹ مینوں کو دے کر غریبوں کو لوٹا جارہا ہے ۔ اس پر سرکاری بابوؤں کو مراعات پر مراعات دی جارہی ہیں ۔ آپ جہاں جنگلات تھے ان علاقوں میں جائیں آپ کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی ۔ وہاں سے جنگلات کا ایسا صفایا کیا گیا ہے جیسے وہ کبھی وہاں تھے ہی نہیں ۔ اور جہاں ہیں ان کا قتل عام جاری ہے ۔ یہ سب کون کررہا ہے ۔ ان جنگلات کی حفاظت پر مامور ہزاروں اہلکار جو حکومت سے سالانہ اربوں روپے کی تنخواہ اور مراعات لے رہے ہیں ان سے کسی نے پوچھا کہ ان کی موجودگی میں یہ سارے جنگل کیسے کٹے اور کیسے کٹ رہے ہیں ۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کا شکار ہم ایسے تو نہیں ہورہے ۔ سوات اور اس کے قرب وجوار میں جاکر دیکھیں دریاوں اور نالوں کی زمین پر قبضے کرکے لوگوں نے ان میں ہوٹل دکانیں اور گھر بنالیے ہیں ۔ ہر ضلع میں افسران کی ایک فوج ہے ۔ جن کے ماتحتی میں ہزاروں اہلکار ہیں اور سینکڑوں کی تعداد میں گاڑیاں ہیں ۔ کبھی کسی نے ان سے پوچھا ہے کہ ان کی موجودگی میں یہ سارے قبضے کیسے ہوگئے ۔ کسی زمانے میں ہم کراچی کے متعلق سنتے تھے کہ وہاں چائینہ کٹنگ ہورہی ہے ، زمینوں پر قبضے ہورہے ہیں ۔ لوگ موبائل چھین لیتے ہیں ، لوٹ لیتے ہیں ، اب اس سے زیادہ خراب اور خطرناک صورتحال ہمارے صوبہ میں ہے جہاں گھر واپس زندہ لوٹنا غنیمت ہوتا ہے ۔ وہ سب کچھ جو کسی زمانے میں وہاں ہوا اس سے کئی گنا زیادہ یہاں ہورہا ہے ۔جس بے دردی کے ساتھ ان علاقوں میں قیمتی درختوں کو کاٹا جارہا ہے اس کو دیکھ کر یہ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ اگلے چند برسوں میں ان علاقوں میں کوئی سیاح نہیں آئے گا ۔ اور ان علاقوں میں سیلابوں سے وہ تباہی آئے گی جس کا ہم تصور تک نہیں کرسکتے۔ ان علاقوں میں جو مہنگائی ہے اس کا آپ تصور تک نہیں کرسکتے جو جس کی مرضی میں آتا ہے وہ ریٹ وصول کررہا ہے ۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ۔ جس بھی ہوٹل یا ریسٹورنٹ جائیں وہ آپ سے ٹیکس کے نام پر پیسے لے رہا ہوتا ہے جب اسے کہتے ہیں کہ ایف بی آر والی رسید دوتو کسی کے پاس نہیں ہوتی ۔ یعنی حکومت اہلکاروں کی ناکامی کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہوگا کہ ان کا کسی پر اختیارنہیں چلتا ۔ راستوں پر ٹریفک جام رہتا ہے مگر مجال ہے کوئی اس کو ٹھیک کرنے اور لوگوں کو ٹریفک کے قوانین کے مطابق روڈ پر چلنے اور گاڑیاں پارک کرنے پر مجبور کرے ۔ یہ سب میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور دل افسردہ ہوتا ہے کہ اس ملک کا کیا حال ہورہا ہے ۔ اگر ارباب اختیار کو یہ سب نظر نہیں آرہا ہے توانہیں اپنی بینائی کا علاج کروانا چاہیے۔ان خرابیوں اور شاہ خرچیوں کو اگر بروقت نہ روکا گیا تو ایک وقت آئے گا کہ لوگ ان کو اپنا حق سمجھنا شروع کردیں گے پھر یہ برائی نہیں رہے گی ۔ ہم ہر کام میں مغرب کے حوالے دیتے ہیں ۔ وہاں کوئی بھی سرکاری اہلکار سرکاری سائیکل بھی اپنے گھر نہیں لے جاسکتا اور نہ کسی سرکاری سہولت کا فائدہ اپنے بچوں یا رشتہ داروں کو دے سکتا ہے ۔ وہاں قانون اتنا مضبوط ہے کہ کوئی بھی بندہ ٹریفک کی خلاف ورزی نہیں کرسکتا ۔ وہاں کوئی کسی درخت کی شاخ کاٹنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا اس لیے کہ اس جرم میں اسے برسوں کی قید اور لاکھوں کا جرمانہ ہوسکتا ہے ۔ خدارا آپ بلین ٹری ، ٹریلین ٹری نہ لگائیں صرف جو لگے ہوئے درخت ہیں ان کی حفاظت ہی کرلیں تو یہ ایک کارنامہ ہوگا ۔ دریاؤں اور نالوں کے قدرتی گزرگاہوں پر جن لوگوں نے قبضہ کیا ہوا ہے ان سے یہ قبضہ چھڑا لیں ۔ اس لیے کہ اگر سیلاب آئے گا تو ان عمارتوں اور قبضہ شدہ جگہوں کی وجہ سے اس کی شدت میں کئی گنا اضافہ ہوگا ۔ ان کی وجہ سے پانی رُکا رہے گا اور پھر زیادہ بڑے ریلے کی صورت نشیبی علاقوں کی طرف آئے گا جس سے انسانوں جانوں کے ساتھ املاک اور روڈ انفرسٹرکچر کو نقصان پہنچے گا ۔ سرکاری گاڑیوں کی تعداد کم کریں ۔ اور ایک ضلع کی گاڑیوں کے دوسرے ضلع جانے پر پابندی عائد کردیں ۔ اس لیے کہ یہ وہ سفید ہاتھی ہے جس سے صوبہ کو اربوں کا نقصان ہورہا ہے اور یہ مسلسل بڑھتا چلا جائے گا۔ سرکاری اہلکاروں کو کام پر لگائیں ان سے غفلت کی صورت میں جواب طلب کریں ۔ انہیں مراعات کے ساتھ کام کرنے کا پابند بنائیں ۔ورنہ بدنامی حکومت کی ہوگی ۔ جس کی قیمت پھر وہ الیکشن میں چکائے گی ۔ اس سے پہلے بھی کچھ سیاسی جماعتوں نے اس کاخمیازہ بھگتا ہے ۔