زمین جنبد ،نہ جنبد

چند روز قبل ایک خبر ذرا ئع ابلاغ پر سامنے آئی تھی جس کے مطابق بھاشا ڈیم کی تعمیر کو جاری رکھنے کیلئے دیگر ترقیاتی منصوبوں پر کٹ لگانے پر حکومت مجبور ہو رہی ہے، جہاں تک بھاشا ڈیم کا تعلق ہے تو اس کی تکمیل کے بعد دیگر ڈیموں( موجود اور مجوزہ) کے مقابلے میں کہیں زیادہ پن بجلی پیدا ہو کر معیشت پر انتہائی مثبت اثرات مرتب کرنے کے علاوہ سستی ترین بجلی کی مقدار میں اضافہ بھی ہوگا اور بجلی کی قیمت میں کمی کیساتھ ساتھ فاضل بجلی خطے کے دیگر ملکوں کو برآمد کرنے سے قیمتی زر مبادلہ بھی کمایا جا سکے گا، مگر بدقسمتی سے ایک خاص ذہنیت کے حامل ان افراد کی سوچ ابھی تک ایک خاص مقام پر منجمد ہونے کی نشاندہی کرتی ہے جو ہر صورت میں” کالا باغ” ڈیم کی تعمیر کو لازمی اور لابدی قرار دے رہے ہیں، حالانکہ اس حوالے سے گزشتہ برسوں میں مختلف حکومتوں کی ہر کوشش کو بحث و مباحثے اور ماہرین کے مطابق اس مسئلے پر کسی متفقہ فارمولے پر نہ پہنچ سکنے کے بعد ہی بھاشا ڈیم کی تعمیر پر اتفاق ہو جانے کے بعد اس حوالے سے منصوبے کو حتمی صورت دئیے جانے کے بعد اس کی تعمیر کیلئے عملی اقدام اٹھائے گئے، حالانکہ اس حوالے سے بھی کالا باغ ڈیم کے حامیوں نے بھاشا ڈیم کی تعمیر میں کئی طرح کے روڑے اٹکانے کی کوشش کرتے ہوئے گلگت، بلتستان کے عوام کو اکساتے ہوئے اس ڈیم کے نام میں ” دیا میر ” کے لفظ کا اضافہ کروا کر اپنے خبط باطن کا اظہار کیا جس کے بعد اس کا نام”دیا میر بھاشا ” کروا کر ہی چھوڑا ،تاہم قطع نظر اس سازشی تھیوریوں کے ،جب دیا میر بھاشا ڈیم پر کام شروع ہوا، تو اب بھی اس کیخلاف کہیں نہ کہیں سے کسی نہ کسی حلقے کی جانب سے بھاشا ڈیم کی تعمیر کی راہ میں روڑے اٹکانے کی ہر ممکن کوششیں جاری ہیں ،اب ایک بار پھر چیئرمین واپڈا نے ایک تازہ انٹرویو میں ”کالا باغ ڈیم” کی ڈفلی بجاتے ہوئے کہا ہے کہ” آج بھی کالا باغ ڈیم معاشی لحاظ سے سب سے زیادہ قابل تعمیر ڈیم ہے، جو آج بھی بن سکتا ہے” انہوں نے کہا کہ” پشاور ریجن کیلئے مہمند ڈیم کافی ہوگا” چیئرمن واپڈا کے ارشادات عالیہ کے حوالے سے سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ جب کالا باغ ڈیم کے مقابلے میں (جس سے نوشہرہ اور قرب و جوار کے کئی علاقے ڈوب کر تباہی لانے کا باعث بن سکتا ہے اور اس حوالے سے ماہرین کے دعوے بھی موجود ہیں )دیامیر بھاشا ڈیم نہ صرف بے ضرر ہے اور اس کی تعمیر سے کسی بھی آبادی کے ڈوبنے کا خطرہ موجود نہیں ہے، بلکہ کالا باغ ڈیم کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ سستی ترین پن بجلی پیدا ہوگی، تو پھر بھاشا ڈیم کی تعمیر پر سنجیدی سنجیدگی سے عمل درآمد کو سست روی کا شکار کر کے اس قسم کی خبریں پھیلانے کا کیا جواز ہے کہ فنڈز کی کمی کی وجہ سے دیگر ترقیاتی منصوبوں پر ” کٹ ” لگا کر بھاشا کے تعمیراتی کام کو جاری رکھا جا رہا ہے، اور اگر بھاشا ڈیم کیلئے فنڈز کی ” کمی” کو جواز بنایا جا رہا ہے تو کالا باغ ڈیم کیلئے فنڈز کہاں سے مہیا ہوں گے ؟، مہمند ڈیم اگر پشاور ریجن کیلئے” کافی” قرار دیا جا رہا ہے تو کالا باغ ڈیم سے جو تباہی نہ صرف نوشہرہ سے لیکر نظام پور اور ملحقہ علاقوں میں مچے گی اور ان کی غرقابی پر منتج ہوگی تو پیچھے سے ورسک ڈیم اور دریائے کابل میں آنے والے پانی کے ریلے پشاور کو بھی زیرآب لانے کے خطرات کو دور نہیں کر سکتے، اس لئے چیئرمین واپڈا صرف ایک خاص صوبے میں وسیع ریگستانی علاقے کو ،جو کروڑوں کے مول بعض بااثر افراد لوگوں نے اسی امید پر خریدے ہیں کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے ان کو سیراب کر کے نہ صرف صوبہ خیبرپختونخواکو”ڈیم و دریا برد”جبکہ سندھ کو خوشحالی کا شکار کر کے وہاں کی لاکھوں کروڑوں ایکڑ زرخیز زمین کو ناقابل کاشت ،نمک و شوری زدہ زمین میں تبدیل کیا جائے گا، تو اس سوچ کو جس طرح پہلے کوئی پزیرائی نہیں ملی، اب بھی اس سوچ کو تج دینا ہوگا ،کیونکہ اگر چیئرمین واپڈا ،اور اس کے پشتیبان ایک خاص صوبے کے عوام کی پزیرائی سے ملک کے دو صوبوں کی بربادی کی منصوبہ بندی کر کے” خراج تحسین” حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اس سے صوبوں کے مابین ایک بار پھر نفرتوں کے بیچ بونے کی بنیاد رکھی جائے گی، جو ملک و قوم کے اتحاد و اتفاق کیلئے کسی بھی طور مناسب نہیں ،اس لئے بہتر ہے کہ بجلی کے مسئلے سے نمٹنے کیلئے بھاشا ڈیم کی تعمیر کو خلوص نیت سے جاری رکھتے ہوئے جلد از جلد تکمیل تک پہنچایا جائے۔

مزید پڑھیں:  تنگ آمد بجنگ آمد