لاپتہ افراد کے معاملے میں ریاست پاکستان کی سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ اس حوالے سے بنائے گئے کمیشن نے 13سال بعد گزشتہ اپنی دو رپورٹس پیش کی ہیں۔ گزشتہ روز وفاقی کابینہ نے جہاں لاپتہ افراد کے خاندانوں کیلئے 50لاکھ روپے فی خاندان امداد کی منظوری دی وہیں یہ بھی بتایا گیا کہ 2269افراد لاپتہ ہیں۔5سال سے لاپتہ 1000افراد کے خاندانوں کو یہ امداد ملے گی۔ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ ریاست گمشدہ افراد کی ذمہ دار نہیں معاوضہ متاثرہ خاندانوں سے ریاست کے مخلصانہ رویے کا عملی ثبوت ہے۔ وزیراعظم ہائوس کے میڈیا سیل کی جانب سے جاری کی جانے والی پریس ریلیز میں لاپتہ افراد سے متعلق کمیشن کی رپورٹ کے حوالے سے عوام کی آگاہی یا متاثرہ خاندانوں کی تسلی و تشفی کیلئے کچھ نہیں ہے البتہ بین الوزارتی کمیٹی کی رپورٹ کا حوالہ دیا گیا جس میں کابینہ کو بتایاگیاکہ ”افغان جنگ کے بعد دہشتگردی نے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، دہشتگردی کی وجہ سے پاکستان کو اندرونی چیلنجز کا سامنا ہے”۔ اسی پریس ریلیز میں گمشدہ افراد کے خاندانوں کی مالی امداد کی منظوری کا ذکر ہے۔ لاپتہ افراد کے حوالے سے گزشتہ روز ایک کیس کی سماعت کے دوران اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج، جسٹس میاں حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے کہ ”پہلے بندہ اٹھانے کیلئے ایس ایچ او کو کہا جاتا تھا اب حکومت پالیسی کے مطابق کام کررہی ہے”۔ فاضل جج نے یہ بھی کہا کہ ہماری باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا، اتنی موٹی کھال ہے، ادارے جب کہہ دیتے ہیں کہ انہیں پتہ نہیں تو یہ سب سے خطرناک صورتحال ہوتی ہے ایسے میں عدالتیں کیا کرسکتی ہیں؟۔ عدالت نے سرکاری وکیل سے کہا کہ آج کی سماعت کا حکمنامہ وزیراعظم شہباز شریف کے سامنے رکھا جائے۔ اسی اثناء میں یہ خبریں سامنے آئیں کہ جس لاپتہ شخص کے حوالے سے عدالتی حکم وزیراعظم کے سامنے رکھنے کیلئے کہا گیا تھا وہ لاپتہ فرد غلام شبیر جمعہ کی شام کو اپنے گھر پہنچ گیا۔ وزیراعظم کے سامنے عدالتی حکم رکھنے کی ہدایت سے چلیں ایک خاندان کو تو انصاف مل گیا مگر بنیادی سوال اپنی جگہ موجود ہے اور اس کا جواب کسی کے پاس نہیں، جواب غیرضروری سمجھا جارہا ہے یا پھر حکومت (صرف موجودہ حکومت نہیں)کیلئے یہ کوئی اہم معاملہ نہیں۔ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے لاپتہ افراد کی تعداد 2269 بتائی ان کے بقول اس میں سے 1000افراد پانچ برس یا اس سے زیادہ عرصہ سے غائب ہیں 50لاکھ روپے فی متاثرہ خاندان امداد ان ایک ہزار افراد کے خاندانوں کیلئے ہے؟ یہ سول اس لئے اہم ہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی سمیت دیگر بلوچ تنظیمیں اور قوم پرست جماعتیں لاپتہ افراد کے حوالے سے جو تعداد بتاتی ہیں وہ اس سے کہیں زیادہ ہے جو وزیر قانون نے بتائی۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے مختلف الخیال بلوچ رہنماء تکرار کیساتھ یہ دعویٰ کرتے دیکھائی دیتے ہیں کہ 10 ہزار بلوچ نوجوان اور بزرگ لاپتہ ہیں ان میں پنجاب کے تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم وہ طلباء بھی شامل ہیں جنہیں مقامی پولیس نے کسی ادارے کے حکم پر اٹھایا تھا۔ فقط ایک طالبعلم جس کی گرفتاری یا اغواء کی ویڈیو منظرعام پر آئی اس پر منشیات کا مقدمہ قائم کرکے ظاہر کیا گیا کہ اسلام آبادمیں زیرتعلیم بلوچ نوجوان طالبعلم کو اغواء کیا گیا بعدازاں اس کی نعش بلوچستان سے ملی اور دعویٰ کیا گیا کہ سیکورٹی فورسز سے مقابلے میں مرنے والا نوجوان ریاست کیخلاف مسلح مزاحمت کا حصہ تھا۔ یہ دو مثالیں قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی اعلیٰ کارکردگی پر بدنما دھبہ ہیں۔ اسی طرح ایک سے زائد بار بعض واقعات کے بعد ملنے والی نعشوں کے بارے میں سرکاری مؤقف یہ رہا کہ مرنے والے غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث تھے۔ جواباً بلوچ تنظیموں نے دعویٰ کیا کہ مرنے والے طویل عرصہ سے لاپتہ تھے اب انہیں مار کر نعش یا نعشیں جائے وقوعہ پر پھینکی گئی ہیں۔ لاپتہ افراد کا معاملہ صرف بلوچستان تک محدود نہیں، سندھ بلوچستان، خیبر پختونخوا، صوبہ پنجاب کے جنوبی حصہ (سرائیکی وسیب) اور خود وسطی پنجاب سے بھی شکایات سامنے آئیں لاہور سے ایک ترقی پسند صحافی مدثر نارو کئی برسوں سے لاپتہ ہے ان کی اہلیہ اسی غم میں وفات پاگئیں۔ ملتان سے ایک معروف قوم پرست رہنماء عبدالستار تھہیم کئی ماہ سے لاپتہ ہیں۔ اسی طرح بعض شیعہ جماعتیں دعویدار ہیں کہ ان کے ہم خیال درجنوں نوجوان کئی برسوں سے لاپتہ ہیں۔ لاپتہ افراد کے جس کمیشن نے 13 برس بعد اپنی رپورٹ حکومت کو بھجوائی ہے اس کمیشن کے سربراہ کی اخلاقی حالت یہ ہے کہ ان پر ایک لاپتہ شخص کی اہلیہ نے الزام لگایا کہ کمیشن کے سربراہ جسٹس (ر) جاوید اقبال نے ان سے کہا ”تم ابھی نوجوان اور خوبصورت ہو دوسری شادی کرلو”۔ گمشدہ افراد کے حوالے سے قائم کمیشن کے سربراہ کی ذہنی سطح اس پورے نظام کی ذہنیت اور حساس مسئلہ پر سنجیدگی کا چیخ چیخ کر اعلان کررہی ہے۔ ہماری دانست میں گمشدہ افراد کی تعداد کے مختلف اعدادوشمار اپنی جگہ لیکن یہ حساس نوعیت کا مسئلہ ہے۔ بدقسمتی سے اس مسئلہ کے آغاز سے اب تک ہر حکومت نے لیپاپوتی سے ہی کام لیا بہت ہوا تو کسی نے یہ دعویٰ کر دیا کہ اتنے لوگ جعلی پاسپورٹوں پر ملک سے باہر چلے گئے اتنے فلاں کالعدم گروپ کیساتھ ہیں۔ اصولی طور پر ہونا یہ چاہیے تھا کہ ہر دو دعوئوں کو ثبوتوں کیساتھ عوام اور متاثرہ خاندانوں کے سامنے رکھا جاتا مگر ایسا نہیں ہوا۔ یہ درست ہے کہ اس طرح کے کیسوں کی عدالتوں میں سماعتوں کے دوران جج صاحبان کے ریمارکس نے ذرائع ابلاغ میں اہمیت حاصل کی لیکن ہوا کیا؟ کچھ بھی نہیں، بیس پچاس لوگ گھر پہنچ گئے۔ یہاں معاملہ ہزاروں لاپتہ افراد کا ہے وزیر قانون کے مطابق 2269افراد لاپتہ ہیں جبکہ مختلف قوم پرست اور مذہبی جماعتوں کی دعویدار کو دیکھا جائے تو یہ تعداد 5 ہزار سے تجاوز کرجاتی ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ یہ مسئلہ کیسے حل ہوگا۔ کیا ایک کمیشن اور بین الوزارتی کمیٹی جس سنجیدہ اور حساس معاملے کو نہیں نمٹاپائے وہ ایک مزید کمیٹی بنادینے سے حل ہوجائیگا؟ بظاہر ایسا ممکن نہیں بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اولاً تو چاروں صوبوں میں ہائیکورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کی سربراہی میں کمیشن قائم کرے اور اس کمیشن کی کارروائی کھلی عدالت کی طرز پر ہو۔ دوسری صورت یہ ہے کہ عام معافی کا اعلان کرکے سنگین جرائم میں ملوث افراد کیخلاف عدالتی کارروائی شروع کی جائے اور باقی ماندہ کو رہا کردیا جائے۔ بادی النظر میں ایسا ہوگا نہیں اور مسئلہ ہر گزرنے والے دن کیساتھ سنگین تر ہوتا جائیگا جس کی وجہ سے ریاست اور عوام کے درمیان بداعتمادی کی خلیج وسیع تر ہوگی۔ اندریں حالات بہتر یہی ہے کہ اس معاملہ کو سنجیدگی سے حل کرنے کی سعی کی جائے۔
مزید پڑھیں
Load/Hide Comments