یہ ناداں گر گئے سجدے میں جب وقت قیام آیا، شاعرانہ تخیل میں کبھی کبھی ایسے عوامل کا برسوں قبل ایسی درست تصویر پیش کرنے کی مثالیں ملتی ہیں جس کے بارے میں گماں گزرتا ہے کہ حضرت شاعر نے تازہ تازہ کلام ارشاد فرمایا ہو۔ملکی سیاست میں ہیئت مقتدرہ کے ساتھ چپقلش اور پنجہ آزمائی ہر چند کہیں کہ نہیں ہے مگر ہے اور ہے بھی ایسی حقیقت جسے جھٹلانا ممکن نہ ہو سیاسی دنیا خود ہی اس کے لئے الفاظ بھی متعین کرکے نئے معانی پہنانے کی ذمہ داری نبھاتی رہی ہے یہ الگ بات کہ لفظ ایجاد کرنے والے انگشت نمائی کرتے ہوئے خود یہ بھولتے ہیں کہ یہ فعل خود ان کے رہنمائوں سے بھی سرزد ہوتی رہی ہے ماضی قریب میں مستعمل یوٹرن کی اصطلاح و سیع المعانی تھی مگر بعد کے حالات نے اہل سیاست کو وی ٹرن تک پہنچایا جس کے باعث ملزمان حکمران اور حکمران ملزم بن گئے اب ایک مرتبہ پھر تاریخ خود کو دہرائے گی یا نہیںتیاری اسی کی نظر آتی ہے کہ کب ماضی کے ملزمان آج کے حکمران اور کل کے ملزمان آئندہ کے حکمران اور حکمران پھر کٹہرے میں واپس کھڑے ہوں ملکی سیاست اور جمہوریت کا یہ وہ المیہ ہے جس کے باعث نہ تو جمہوریت مستحکم ہو پاتی ہے اور نہ ہی ملک میں مستحکم حکومت آتی ہے حالانکہ ہمارے ہاں بھی جمہوری ادوار کے وزرائے اعظم یا حکومتوں کی مینڈیٹ کی تکمیل سے ملک میں سیاسی استحکام کا گمان گزرنے لگا تھا کہ پھر سے سانپ اور سیڑھی والا کھیل شروع کر دیاگیا جس کا نتیجہ سبھی کے سامنے ہے ۔ یہ اطوار اور وتیرہ ملکی سیاست، جمہوریت کے استحکام اور معیشت و اقتصاد کی نمو کے لئے کس قدر ضرر رساں ہے اس کا جتنا جلد ادراک ہوجائے ملک و قوم کے لئے اتنا ہی اچھا ہو گامگر ہمارے ہاں کے اہل سیاست ہمسائے کی مرغی کو مارنے کے لئے اپنی دیوار گرانے کو گھاٹے کا سودا نہیں سمجھتے بدقسمتی یہ ہے کہ اس سے کوئی بھی مبرا نہیں کم یا زیادہ ہر سیاسی جماعت اور سیاستدان اسی کردار و عمل کا مظاہرہ پیش کرتا آیا ہے سابق وزیر اعظم کی جیل سے لندن روانگی اور پھر واپسی میں پس پردہ ڈیل اور ڈھیل کے امکانات شبہات مشاہدات اور تاثرات کا اظہار خلاف واقعہ اور بے جا نہیں تو سابق وزیر اعظم اور تحریک انصاف کے ا سیر قائدکے بیانات سے اب واضح طور پر اس کا اظہار ہوتا ہے کہ پینترا بدلنے لگا ہے کل کے خوب ناخوب ہوئے مگر اب پھر خوب سے خوب تر قرار دینے کی مجبوری لاحق ہے حاصل و صول کا بہر حال اندازہ نتیجہ برآمد ہوتے دیکھ کر ہی ہو سکے گا۔ اپنے تازہ اظہار خیال میںفوج سے اچھے تعلقات نہ رکھنے کو اپنی حماقت قرار دیتے ہوئے بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ پاکستان کی جغرافیائی پوزیشن اور نجی شعبے میں فوج کے اہم کردار کے باعث اگر فوج کے ساتھ بہترین تعلقات نہ رکھے جائیں تو یہ حماقت ہوگی۔ سپاہیوں اور مسلح افواج پر فخر کا اظہار کرتے ہوئے بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ فوج کے ساتھ کسی بھی طرح کے مذاکرات کے لئے تیار ہیں۔ اقتدار سے ہٹنے کے بعد جو بھی تنقید کی وہ شخصیات پر تھی، فوج پر بطور ادارہ نہیں تھی۔ انہوں نے کہا کہ فوجی قیادت نے اگر کوئی غلط اندازے لگائے تو اس کا الزام فوج پر بطور ادارہ نہیں لگانا چاہئے۔ ماضی میں امریکا پر اپنی حکومت کے خاتمے کا الزام لگانے والے بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ ان کے دل میں امریکا کے خلاف کوئی بغض نہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اگر آزادانہ اور شفاف الیکشن کروائے جائیں اور ان کے خلاف بوگس کیس ختم کئے جائیں تو وہ فوج کے ساتھ مذاکرات کے لئے تیار ہیں۔ اقتدار سے محرومی کے دنوں میں امریکہ ان کے معتوب اول تھے اور محرومی اقتدار کے بعد فوج ان کے معتوب اول اور امریکہ معتوب دوم ٹھہرے اور آٹھ مئی کو تحریک انصاف اتنا آگے گئی کہ اس کے اثرات سے ان بیانات کے باوجود نکلنے میں وقت بھی لگے گا اور سمجھوتہ بھی کرنا پڑے گا مگر ان کی خوش قسمتی یہ ہے کہ ان کے حوارئین ان کی ہر تشریح پر آمنا وصدقناکہنے والے ہیں سوال کرنا ان کی کتاب میں نہیں اور اگر کرنا بھی ہے تو وہ خود سے نہیں اپنی قیادت سے نہیں بلکہ حساب دوسروں سے مانگنا ہے بہرحال یہ تو جملہ معترضہ تھا اس سارے اظہار خیال کے باوجود تحریک انصاف اور اس کے قائد میں سے کوئی ایک ہی ایک وقت میں بھنور سے نکل سکتی ہے دوسرے نے گرداب میں ہی اس وقت تک رہنا ہے جب تک سارے حساب چکتائے نہیں جاتے سب سے اہم مسئلہ نو مئی کے واقعات اور اس میں ملوث عناصر اور گرفتار شدگان کا ہے لیکن ملکی سیاسی و عدالتی تاریخ میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ جب دن پھر جاتے ہیں تو زنجیر کی کڑیاں ایک ایک کے کھل جاتے ہیںاور ٹوٹتی جاتی ہیں اس مرتبہ تاریخ خود کو دہراتی ہے یا پھر نئی تاریخ رقم ہوتی ہے پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ۔