منصوبہ بندی کا فقدان رنگ لا رہا ہے

پاکستان میں موجودہ تباہ کُن صورتحال کا اگر جائزہ لیا جائے تو اس کی صرف ایک ہی وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ اس ملک میں منصوبہ بندی کا فقدان ہے ۔ آپ اسے خاندانی منصوبہ بندی نہ سمجھیں ۔اگرچہ خاندانی منصوبہ بندی بھی ملک کے لیے بہت زیادہ اہم ہے اور اس کے بغیر بھی ترقی اور خوشحالی کا تصور ممکن نہیں ہے ۔ مگر اس ملک میں ملک چلانے اور اس کو مستقبل کی ضروریات و تقاضوں کے مطابق چلانے کے لیے جو منصوبہ بندی درکار ہے اس کا فقدان ہے ، یہاں ہر وہ کام تواتر کے ساتھ کیا جاتا ہے جس سے اس ملک کا نقصان ہوتا ہے اور ایک بھی ایسا کام نہیں کیا جاتا جس سے اس ملک کا فائدہ ہو۔ ملک کو توانائی کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اس کے لیے دنیا کے تمام ممالک اپنے اپنے ملک میں دستیاب سستے ترین اور ماحول دوست ذرائع استعمال کرتے ہیں ۔ ہمارے ملک میں چُن چُن کر مہنگے اور ماحول دشمن ذرائع سے یہ کام کیا جارہا ہے ۔ یہی نہیں بلکہ اس کی آڑ میں ملک کو بے دردی کے ساتھ لوٹا بھی جارہا ہے ۔ اشرافیہ کا ایک ایسا گٹھ جوڑ کہ جس میں سو دوسو بااختیار افراد ملک کی بیخ کنی میں لگے ہوئے ہیں ۔ تیس ہزار ارب سے زیادہ روپے یہ اشرافیہ اب تک بجلی پیدا کیے بغیر ہضم کرچکے ہیں اور یہ سلسلہ مزید بڑھے گا ۔ اگر اس ملک میں مخلص منصوبہ ساز ہوتے تو ملک میں موجود دریائی پانی سے اب تک ایک لاکھ میگا واٹ بجلی پیدا کررہے ہوتے ۔ جس پر لاگت ایک سے دو روپے فی یونٹ آتی اور اس کے استعمال سے ملک بھر میں کارخانے چل رہے ہوتے ۔ مگر ایسا نہیں کیا گیا بلکہ اس ملک کے زردارو ں ، شریفوں ، طاقت وروں ، کھلاڑیوں ،اور سرمایہ داروں نے مہنگے درآمدی تیل ،کوئلے اور گیس سے بجلی بنانا شروع کردی ۔ دس روپے کی بجلی بناکر حکومت کو سو روپے کی بیچتے ہیں اور دس یونٹ بنا کر دو سو یونٹ کی قیمت وصول کرتے ہیں ۔ کچھ بجلی بنانے کے کارخانے تو ایسے ہیں جنہوں نے کبھی بجلی بنائی ہی نہیں اور ان کو سینکڑوں ارب روپے دئیے گئے اور دئیے جارہے ہیں ۔ کوئلہ پاکستان میں بھی ہے لیکن بجلی مہنگی بنانی ہے اس لیے ولایت سے لائی جارہی ہے ۔ گیس اس ملک میں بھی ہے لیکن گیس قطر سے لائی جارہی ہے کیونکہ اس کی قیمت مقامی گیس اور کوئلے کے مقابلے میں چار سو فیصد زیادہ ہے ۔ ملک میں جو پانی سے بجلی پیدا ہورہی ہے اس کی ترسیل کے لیے اول تو لائن ہی نہیں بچھائی گئی اور کہیں لائن موجود بھی ہے تو اس میں خرابی پیدا کرکے اس بجلی کو جو سب سے سستی ہے اس کی ترسیل کو ہی ناممکن بنادیا گیا ۔ اس پر کوئی عدالت اعتراض نہیں اٹھاتی کوئی نیب یا دوسرا ادارہ حرکت میں نہیں آتا ۔ نیلم جہلم کب سے بند پڑا ہے کوئی پوچھتا ہی نہیں ہے ، گولین گول ہائیڈل پراجیکٹ کی ترسیلی لائن کب سے خراب ہے کسی کو کیا پرواہ۔ اگر اس ملک میں کوئی منصوبہ ساز ہوتا تو ان باتوں پر سوچتا پھر اس کے لیے منصوبہ سازی کرتا اور اس کے لیے ایسا انتظام کرتا کہ بجلی گھربنتے ساتھ اس کی مکمل ترسیل کا بندوبست کر دیا جاتا ۔ اس وقت خیبر پختونخوا اپنی ضرورت سے تین گنا زیادہ بجلی اور دو گنا زیادہ گیس پیدا کرتی ہے مگر بجلی اور گیس کی سب سے زیادہ کمی اسی صوبہ میں ہے ۔ اسی صوبہ کی گیس کو پنجاب لے جاکر اس سے وہاں بجلی بنانے کا کام لیا جاتا ہے جبکہ جہاں سے یہ نکلتی ہے وہاں کے لوگوں کے گھروں تک کو یہ میسر نہیں ہے ۔ ہمارے صوبہ میں بجلی دس رووپے سے کم فی یونٹ پیدا ہوتی ہے اور ہمیں پچاس روپے سے زیادہ کے نرخ پر دی جاتی ہے ۔ اگر ہماری صوبائی حکومتوں میں کچھ پڑھے لکھے ہوتے اور ہماری صوبہ کی بیورکریسی اس صوبہ کے ساتھ مخلص ہوتی تو گزشتہ دس برسوں میں ویلنگ پراجیکٹ کو قابل عمل بنالیتے اور اس وقت ہم اس عذاب سے دوچار نہ ہوتے ۔ مگر اس صوبہ میں جتنا منصوبہ کا فقدان ہے اس کی مثال پور ی دنیا میں نہیں مل سکتی ۔ حالیہ مثال مردان میں تعلیمی ضروریات کے لیے پانچ ہزار کنال سے زیادہ اراضی کا ہے جس کو آج سے پندرہ برس پہلے تمام قانونی تقاضے مکمل کرکے خرید لینا چاہئیے تھا مگر اس میں شعوری طور پر تاخیر کی گئی اور ان زمینوں کے مالکان کو جان بوجھ کر قانونی راستے اپنانے پر مجبور کیا گیا جنہوں نے اعلیٰ عدالتوں میں جاکر زیادہ قیمتیں مانگ لیں ۔ عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ دیا اور اب صوبائی حکومت ان زمینوں کو واپس کرنے یا فروخت کرنے کی تگ و دو میں ہے ۔ اگر منصوبہ بندی کی جاتی اور اس کے مطابق ان زمینوں کو خریدا جاتا اور ان پر تعلیمی ادارے بنائے جاتے تو آج اس کی وجہ سے یہ پورا خطہ ترقی کررہا ہوتا ۔ مگر خریدنے والوں کی نیت بھی تعلیم کی ترقی نہیں تھی اور فروخت کرنے والوں کی نیت بھی تعلیم کی ترقی نہیں ہے ۔ جب یہ خریداری ہوئی اس وقت بھی ذاتی فائدے اٹھائے گئے اور اب بھی اس کے پیچھے یہی سوچ کارفرما ہے ۔ اس صوبہ میں جان بوجھ کر تعلیم اور تعلیمی اداروں کو خراب کیا گیا ۔ شخصی طور پر فیصلے کرکے ایک شہر میں اپنے ذاتی فائدوں کا انتظام کیا گیا یہ عمل مردان کے بعد سوات میں بھی دہرایا گیا ۔ اور ان دو ضلعوں پر اتنے وسائل لگادئیے گئے جن کی ان کو ضرورت نہیں تھی اور دیگر علاقوں پر توجہ نہیں دی گئی یہ سلسلہ چلتا رہے گا اس لیے کہ اس میں لوگوں کا مفاد ہوتا ہے ۔ ان لوگوں کے مفاد کے لیے سرکار سے تنخواہ لینے والے بھی انہی کا فائدہ سوچتے ہیں جس کا نتیجہ پاکستان ہے جہاں سب کچھ الٹا چل رہا ہے ۔ جس کو ہر کوئی نوچ رہا ہے مرہم بدست کوئی نہیں ہے ۔ جہاں سمگلنگ سے لیکر انصاف تک سب کچھ مافیاز کے ہاتھوں میں ہے ۔جہاں گدھ ہیں ۔جو مرچکے ہیں ان کو نوچ رہے ہیں اور جو زندہ ہیں ان کے مرنے کے انتظار میں منڈلا رہے ہیں ۔ اس سب کا علاج موجود ہے ۔اور وہ ہے تعلیم ۔یہاںکا انجینئر صرف اس لیے یہ تعلیم حاصل کررہا ہے کہ وہ نوکر بن کر کمیشن وصول کرے گا ، ڈاکٹر اس لیے تعلیم حاصل کررہا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ فیس وصول کرے گا ۔ ہر تعلیم کو اس کے مقصد سے جوڑ دیا جائے اور کاموں کو منصوبہ بندی سے مربوط کیا جائے اور اس پر سختی کے ساتھ عمل درآمد کیا جائے تو سارے مسائل حل ہوسکتے ہیں ۔ یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے ۔یہ ماضی قریب میں بہت سارے ممالک کرکے اپنے حال کو بہتر کر چکے ہیں۔اور مستقبل کو مزید بہتر بنا رہے ہیں ۔ مگر اس میں شرط یہ ہے کہ حکمران قابل اور محب وطن ہوں ، قاضی انصاف پسند ہوں ، کام پروفیشنلوں کے حوالے کیا جائے ۔ اور سزا و جزا کا قانون ہو تو یہ سب ہوسکتا ہے ۔

مزید پڑھیں:  سیاست میں مداخلت صرف2 سال سے ہے؟