بنگلہ دیش میں عوامی لیگ کی وزیر اعظم حسینہ واجد طلبہ کی شروع کردہ ایک تحریک کے نتیجے میں ایسی حالت میں فرار ہوئیں کہ انہیں قوم سے خطاب اور کھانا بھی تناول کرنے کا موقع نہ ملا ،اپنے پندرہ سالہ دور اقتدار میں انہوں نے بنگلہ دیش میں جس طرح عوام کا ناطقہ بند کئے رکھا، مخالفین کو پھانسی دینے اور جبر کے جو نئے باب رقم کیں بالآخر شامت اعمال ما صورت نادر گرفت کی صورت میں سامنے آ ئے، ان کی پاکستان دشمنی اپنی جگہ اس میں عبرت حاصل کرنے کی بات یہ ہے کہ جب عوام ٹھان لیتی ہے تو پھر اس کے سامنے کوئی زمینی طاقت نہیں ٹھہر سکتی ،حسینہ واجد کا دور بد عنوانی ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگیوں سے عبارت رہی، اگر چہ مختلف ممالک کے حالات مختلف ہوتے ہیں اور عوام کا مزاج بھی مختلف ہوتا ہے لیکن محولہ تین چیزیں ایسی ہیں کہ ہمارے ملکی حالات سے حیرت انگیز طور پر مماثل ہیں، وطن عزیز میں بھی اس طرح کے حالات کی بار بار نشان دہی کی جاتی رہی ہے صرف یہی نہیں ہمارے ملک میں بھی انتخابی نتائج پر جاری تنازعہ پر عوام کا پیمانہ صبر لبریز نظر آ تا ہے، یہ صرف ایک سیاسی جماعت یا چند سیاسی جماعتوں کا مسئلہ نہیں یہاں تک کہ صحیح معنوں میں تو برسر اقتدار جماعتیں بھی حکومت اور اقتدار سے مطمئن اس لئے نظر نہیں آ تیں کیونکہ وہ عوامی مسائل کے حل میں بری طرح ناکامی کا شکار اور ان کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ،سڑکوں پر صرف جماعت اسلامی ہے لیکن وہ جن مسائل اور مطالبات کو لیکر نکلی ہے وہ پورے ملک کے عوام کی آ واز ہے، اس کے باوجود جس طرح بنگلہ دیش میں عوام کی نہیں سنی گئی اور ایک طویل عرصے تک عوام کو ریاستی جبر کے تحت رکھا گیا پاکستان میں بھی اسی طرز کا عمل جاری ہے جس طرح سری لنکا کے عوام نکلے اور حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پڑے اور اب ایک اور پڑوسی ملک بنگلہ دیش میں وہی انداز دہرا یا گیا وہ ہمارے لئے بھی سبق اور لمحہ فکر یہ ہو نا چاہئے ،دنیا کے دیگر ممالک میں بھی اس طرح کے حالات کی کئی مثالیں موجود ہیں کہ حکمرانوں سے تنگ آئے عوام نکل کر حکومت کیخلاف پرتشدد مظاہرے کرکے حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ہو، اس طرح کے حالات سے بار بار اس امر کی تصدیق ہوتی آ ئی ہے کہ عوامی طاقت کے سامنے کوئی بھی طاقت نہیں ٹھہر سکتی، اس طرح کی تحریکوں کے روح رواں نوجوان ہؤا کرتے ہیں، بنگلہ دیش میں بھی تحریک طلبہ نے شروع کی مگر طاقت کے نشے سے سرشار حکمرانوں نے بجائے اس کے کہ ان کی سنتے طاقت اور تشدد کا سہارا لیا اور احتجاج میں سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے مگر تحریک نہ رکی، بنگلہ دیش کے طلبہ کی تحریک اور پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے احتجاج میں کوئی مماثلت نہیں، وہاں کے عوام پاکستان سے غداری کے مرتکب ٹولے کیخلاف طویل عرصے سے ادھار کھائے بیٹھے تھے اور حکومت جماعت اسلامی کے بزرگ رہنماؤں کو یکے بعد دیگرے پاکستان کی حمایت کی سزا دی رہی تھی اور سالوں بعد بھی سقوط مشرقی پاکستان کے زخم ان مظالم کو دیکھ کر بار بار ہرے ہو رہے تھے جن کی قربانیاں ایک طویل عرصے بعد رنگ لائیں لیکن قدر مشترک عوامل بھی حیرت انگیز ہیں جن کا موازنہ مطلوب نہیں بلکہ مقصود اس جانب توجہ دلانا ہے کہ وہ تیں اس جیسی غلطیاں نہ دہرائی جائیں جن کے باعث عوام تنگ آ مد بجنگ آ مد سڑکوں پر نکلی، تصادم ہوئے اور بالآخر حکمرانوں کو راہ فرار اختیار کر نا پڑی،پاکستان میں اس وقت سیاسی معاملات کو اگر ایک طرف بھی رکھا جائے تو بھی عوام کے مسائل اور حالات ہیں ریاست کے جو معاملات اور حکام کا انداز فکر اور عوام سے رویہ اور عوامی تحفظات کے حوالے سے رویہ ہے، اس سے جو لاوا پک رہا ہے اس کے بروقت ادراک اور اصلاح احوال پر توجہ ضروری ہے قبل اس کے دیر ہو جائے عوامی مسائل کا حل اور داخلی استحکام کی راہیں تلاش کی جا ئیں۔