وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کا آ بائی علاقہ اور آ س پاس کے علاقوں میں امن و امان، سرکاری ملازمین کا تحفظ اور بینکوں کی رقومات کی منتقلی کی حفاظت جیسے معاملات میں ناکامی کے بعد اب سرکاری طور پر سخت اور ٹھوس انتظامات یقینی بنانے کی بجائے مزید خدشات کا اظہار ناکامی ہے یا اعتراف حقیقت اس سے قطع نظر اس سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ حکومت اس مد میں اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں ناکامی کا شکار ہے، ایک جانب جہاں انسداد دہشتگری کی مربوط مساعی کے منصوبے سے اتفاق نہیں کیا جاتا وہاں دوسری جانب اس سر کاری انتباہ سے یہی اخذ ہوتا ہے کہ صوبائی حکومت کے پاس ان حالات سے نمٹنے اور خطرات سے نمٹنے کیلئے کوئی حکمت عملی نہیں ،ایسے میں سرکاری ملازمین میں عدم تحفظ کے احساس میں اضافہ فطری امر ہے، مستزاد جب پے درپے واقعات کے بعد پر اسرار اور چھلاوہ نما عناصر کی کارروائی جاری ہو اور تدارک کے اقدامات کی بجائے خود حفاظتی کے مشورے پر اکتفا کیا جائے ،خود حفاظتی اقدامات اپنی جگہ لیکن حکومت اور انتظامیہ کا کام حالات پر قوت سے قابو پانا ہے جس کا تقاضا ہے کہ ایک خاص علاقے میں فورسز کی تعداد میں اضافہ کرنے کیساتھ کسی بھی واقعے پر بروقت حرکت میں آ نے اور تعاقب کی بہتر صلاحیت کا مظاہرہ ہے،توقع کی جانی چاہئے کہ علاقے کو سرکاری اہلکار وں کی بجائے کارروائی کرنیوالے عناصر کیلئے نو گو ایریا بنا دیا جائیگا۔