بنگلہ دیش کی وزیر اعظم حسینہ واجد فلپائن کے صدر مارکوس ،یوکرین کے ایڈورڈز شیورڈز نادزے ،ایران کے بادشاہ رضا شاہ پہلوی سمیت ان لاتعداد حکمرانوں کی اس صف میں کھڑی ہوگئیںجن کے اقتدار کو عوام کی طاقت نے بیخ وبُن سے اکھاڑ پھینکا اور ان میں سے کوئی دوبارہ اقتدار تو کیا وطن کی سرزمین پر قدم نہ رکھ سکا ۔حسینہ واجد جو کل تک اپنے خلاف اُٹھنے والی ہر آواز کو وطن دشمنی کے طعنوں میں اُڑادیتی تھیں سرزمین وطن سے بے نیل ومرام نکلنے پر مجبور ہیں اور ان کی فوری جائے پناہ بھارت کا شہر اگرتلہ قرار پایا گویا کہ پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا ۔حسینہ واجد نے اقتدار میں آتے ہی اپنی دہشت قائم کرنے کیلئے اپنے باپ کے دور کے سیاسی مخالفین کو پھانسیاں دے کر قصۂ ماضی چھیڑ دیا ۔وہ اپوزیشن کا وجود مٹانے کے راستے پر چل پڑیں ۔اس عرصے میں ان کا واحد کارنامہ بنگلہ دیش جیسے غریب ملک میں کروڑوں لوگوں کو خطِ غربت سے نکالا اور ملک کی معیشت کو مضبوط کیا ۔یہ ترقی نمایاں اور واضح تھی مگر انہوں نے اس ترقی کی قیمت بنگلہ دیش کے سیاسی تنوع اور آزادی اظہار اور حق رائے دہی کے خاتمے کی صورت وصول کی ۔معاشی ترقی بھی انسانوں کیلئے بہت ضروری ہوتی ہے مگر قدرت کا عطا کر دہ تنوع ان کی جبلت میں ہوتا ہے ۔اظہار ذات ،اظہار رائے اور اظہارشعورکیلئے کوئی باشعور قوم مادی ترقی کو بھی اہمیت دیتی ہے مگر وہ اپنی انفرادیت اور انفرادی واجتماعی رائے کے احترام کو ہر چیز پر مقدم رکھتی ہے ۔بنگالی عوام تاریخ کے ہر دور میں چونکہ بہادر اور سیاسی شعور سے بہرہ مند رہے ہیں اس لئے انہوںنے حسینہ واجد کی معاشی ترقی کی قیمت اپنے تنوع اور اظہار رائے کی صورت میں چکانے سے انکار کیا اور یہی انکار حسینہ واجد کی چوتھی باری کے خوابوں کو کرچی کرچی کرنے کا باعث بنا اور ایک دوپہر حسینہ واجد ہیلی کاپٹر پر بیٹھ کر سوئے بھارت چل دیں۔حسینہ واجد نے چوتھی بار کا انتخابات بنگلہ دیش کو سیاسی قبرستان بنا کر جیتا ۔اپنے مخالفین کو میدان سے باہر نکال کر تنہا ہی ہاتھ بلند کرکے مقابلہ جیتنے کا اعلان کر دیا ۔دنیا نے اس طریقہ ٔ کار پر انگلیاںاُٹھائیں مگر حسینہ واجد نے عالمی رائے کے اعتراضات کو پرکاہ برابر اہمیت نہیں دی ۔وہ بنگلہ دیش میں ایک مطلق العنان کے طور پر حکمرانی کا خواب دیکھ رہی تھیں ،انہوںنے بنگلہ دیش کو شیخ مجیب الرحمن کے مخالفین سے خالی کرکے بنگلہ بندھو شیخ مجیب الرحمن کے مجسموں سے بھر دیا تھا جو ان کی آمرانہ سوچ کا منہ بولتا ثبوت تھا ۔حسینہ واجد بنگلہ دیش کی چوتھی بار وزیر اعظم بنیں تو اپنے اصل محسن نریندر مودی کے احسانات کا بوجھ اُتارنے کیلئے انہوں نے چین کیساتھ تعلقات کا گراف کرانا شروع کر دیا ۔یہاں تک کہ وہ چین کا دورہ ادھورا چھوڑ کر ڈھاکہ لوٹ گئیں اور انہوںنے نریندر مودی کیساتھ کئی بڑے تعمیراتی پروجیکٹس کے معاہدے کرنا شروع کئے ۔بنگلہ دیش بھی کئی جنوبی ایشیائی ملکوں کی طرح چین اور بھارت کے درمیان سینڈوچ بن کر رہ گیاہے۔حسینہ واجد کی کامیابی میں نریندرمودی کا عمل دخل تھا اس لئے حسینہ واجد چوتھی بار ان کے آگے بچھی جا رہی تھیں ۔حسینہ واجد کی اس خود اعتمادی کو کسی کی نظر لگ گئی اور بنگلہ دیشی طلبہ نے ملازمتوں میں عوامی لیگ کے حامیوں کے کوٹے کیخلاف احتجاج کا نعرہ لگا یا اور یہ نعرہ جنگل کی آگ کی طرح پھیلتا چلا گیا ۔ایک تعلیمی ادارے سے دوسرے تک اور ایک شہر سے دوسرے شہر تک طلبہ احتجاج کی لہریں پھیلتی چلی گئیں ۔حسینہ واجد کے اندر کا آمر جاگ پڑا انہوںاس احتجاج کو کچلنے کیلئے فوج اور پولیس کا بے دریغ استعمال کرنا شروع کیا ۔بنگلہ دیش کے پرجوش طلبہ نے جذبات میں آگ لگا دینے والے نعرے او ترانے ایجاد کئے اور سوشل میڈیا بالخصوص ٹک ٹاک کے ذریعے انہیں پھیلا دیا ۔وہ بہت زوردار انداز میں اپنے نعرے اور ترانے پیش کرتے رہے اس طرح سوشل میڈیا کی طاقت کے سہارے طلبہ نے عوامی لیگ حکومت کو ہلا کر رکھ دیا یہاں تک حسینہ واجد نے طلبہ کے مقابلے کیلئے اپنے طلبہ ونگ چھاترو لیگ کو اسلحہ سے لیس کر کے اُتارا اوریوں بنگلہ دیش کو خانہ جنگی کی نذر کرنے کی کوشش کی گئی ۔چھاترو لیگ نے احتجاجی طلبہ پر جبر وتشدد کا آغاز کیا ۔اسی دوران ابوسعید نامی ایک طالبعلم حریت اور جرات کا استعارہ بن کر سامنے آیا ۔وہ نوجوان جس نے پولیس اہلکاروں کے آگے اپنا سینہ تان کر کہا گولی چلائو ۔پولیس نے ایک نہیں چار گولیاں اس کے سینے میں اُتار دیں اور ابو سعید جاں بحق ہوگیا ۔کیمرے کی آنکھ نے یہ منظرمحفوظ کیا اورابوسعید کو امرکر دیا ۔حسینہ واجد نے مظاہرین کو رضاکار قرار دیا گویاکہ یہاں بھی حسینہ واجد نے پاکستان نفرت کارڈ کھیلنے کی کوشش کی ۔حسینہ واجد نے اپنے مطالبات کیلئے احتجاج کرنیوالے طلبہ کو مشرقی پاکستان میں فوج کی مدد کرنے والوں سے تشبیہہ دی ۔جس پر پہلے پہل طلبہ مزید مشتعل ہوگئے مگر تحریک کے اگلے فیز میں انہوںنے اعلان کیا ہاں میں رضاکار ہوں ۔یہ حسینہ واجد کیخلاف بڑھتی ہوئی نفرت کا ثبوت تھا۔حسینہ واجد نے زچ ہو کر جماعت اسلامی اور اسلامک چھاتروشبر پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ ان مظاہروں کے پیچھے چھاترو شبر کا ہاتھ ہے ۔حسینہ واجد نے چار وناچار طلبہ کے مطالبات مان لئے مگر خون کے دھبے اس برسات سے دھلنے نہ پائے اور طلبہ نے اپنے مارے جانیوالے ساتھیوں کو انصاف فراہم کرنے اور حسینہ واجد کے استعفیٰ کا مطالبہ شروع کردیا ۔ایک بار پھر مظاہرے شروع ہوئے اوریہ دوسرا فیز حسینہ واجد کے اقتدار کو اپنے ساتھ بہا کر لے گیا۔حسینہ واجد کے بنگلہ دیش چھوڑتے ہی عوام سڑکوں پر نکل آئے اور جابجا شیخ مجیب الرحمن کے مجسموں کو اسی اندازسے گرانے لگے جس طرح سوویت یونی کے انہدام کے وقت ماسکو میں لینن اور عراق میں امریکی فوج کی آمد کے بعد صدام حسین کے مجسموں کو گرایا گیا تھا ۔ یوں حسینہ واجد کا پندرہ سالہ آمرانہ دور عوامی طاقت اور ردعمل کے نتیجے میں اپنے انجام کو پہنچ گیا ۔مالدیپ کے بعد بنگلہ دیش جنوبی ایشیاء کا دوسرا ملک بنا جس نے چین اور بھارت کی علاقائی کشمکش میں چین کو برتری دلانے میں کردار ادا کیا مگر بھارت اتنی آسانی سے اس شکست کو قبول نہیں کریگا کیونکہ ان پندرہ سال میں حسینہ واجد نے بنگلہ دیش کو بھارت کی کالونی بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔نریندرمودی نے امریکہ کو حسینہ واجد کی کامیابی میں روڑے نہ اٹکانے پرآمادہ کیا ۔امریکی حسینہ واجد کی انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کے حوالے سے ریکارڈ سے خوش نہیں تھے مگر مودی نے انہیں ا س دلیل کے ساتھ قائل کیا کہ حسینہ داجد پر زیادہ دبائو ڈالا گیا تو وہ چین کے قریب چلی جائیں گی ۔اس کے بعد ہی حسینہ واجد کی کامیابی کیلئے ماحول خوش گوار ہوتا چلا گیا تھا ۔اب حالات نے چند ماہ میں ہی ایسا پلٹا کھایا کہ حسینہ واجداپنی زبردستی کی جیت سمیت ماضی کی داستان بن گئیں اوریوں ون ویمن شو اپنے انجام کو پہنچ گیا۔