فریاد کچھ تو ہو؟

اب تو ایسا لگتا ہے کہ اس مسئلے پر جس کا ذکر کیا جانے والا ہے مزید کچھ کہنا یا لکھنا سٹیریوٹائپ فریاد کی شکل اختیار کر چکا ہے اور بقول شاعر وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں بدلیں کے مصداق پشاور میں بڑھتی ہوئی رہزنی ، چھینا جھپٹی اور دیگر سٹریٹ کرائمز قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لئے ”روٹین” کا معاملہ بن گئے ہیں اور عوام کی فریاد کا ان اداروںکے نزدیک کوئی قابل توجہ امر ہی نہیں رہا ہے بلکہ انتہائی معذرت کے ساتھ کہنے دیجئے کہ یہ جو الزامات عوامی سطح پرلگائے جاتے ہیں کہ ان سٹریٹ کرائمز میں متعلقہ اداروں کے اندر موجود کا لی بھیڑوں کا بھی ہاتھ ہے اور اگر ان کی آشیرباد نہ ہو تو ایسی وارداتیں جنم ہی نہ لے سکیں، ان الزامات میں کتنی صداقت ہے وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا تاہم وہ جو قدیم زمانے سے ایک ضرب المثل مشہور ہے کہ بغیر چوکیدار کی مدد اور تعاون سے نقب زنی کی واردات نہیں کی جاسکتی ۔ تو معاملہ شاید اس نہج پر پہنچ چکا ہے تاہم عوام پھر بھی امید رکھتے ہیں کہ انہیں اسے محفوظ رکھنے میں متعلقہ ادارے اپنی ذمہ داری پوری کریں گی۔حکام کو اس حوالے سے ہر پہلو پر غور کرنے اور اپنے صفوں سے لے کر شہر کی سڑکوںتک ہر جگہ اصلاح اور تطہیر کے مربوط اور ٹھوس اقدامات پر بلاتاخیر توجہ دی جائے اور شہریوں کو تحفظ کااحساس دلایا جائے۔

مزید پڑھیں:  خالدہ ضیاء طرز رہائی کاخواب