ملک کے ایک سینئر،تجربہ کار اور محب وطن صحافی نے اپنے تازہ ترین کالم میں موجودہ بحران کے خاتمے کیلئے ملک میں قومی اتحاد کی حکومت کی تجویز دی ہے۔ان کے کالم کا لب لباب یہ ہے کہ ہم کئی بحرانوں کا شکار ہیں8 فروری کے الیکشن کے بعد ملک کا کوئی بھی فریق یا ادارہ خوش نہیں۔سب سے زیادہ ناراض پاپولر تحریک انصاف ہے جن کو یہ شکایت ہے کہ فارم 47کے ذریعے ان کا مینڈیٹ چھین لیا گیا ہے ۔ فیصلہ ساز بھی مطمئن نہیں۔ 8فروری کے بعد انہیں ایک دن بھی چین اور سکون کا نہیں ملا اور نئی حکومت ڈیلیور کرنے میں بھی ناکام ہے۔ اس لئے ایسی حکومت دوسال کیلئے بنائی جائے جس کے بعد منصفانہ انتخابات ہوں اور جو پارٹی بھی اس میں جیتے وہ اگلی حکومت چلائے ۔ اس تجویز کا مطلب گویا یہ ہے کہ نون لیگ، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف بھی حکومت میں شامل ہو، مقتدرہ بھی آن بورڈ ہو غیرمتنازع اور متفقہ وزیر اعظم بنایا جائے۔ ان کے پاس دو سال کا وقت ہو یہ اتحادی قومی حکومت بننے سے مقتدرہ اور عوام کے درمیان موجود تضادات فورا ختم ہو جائیں گے۔ تحریک انصاف کی ناراضگی اور گلے شکو ے ختم ہو جائیں گے ۔ ہم دنیا بھر میں اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بھی بحال کرالیں گے۔ ساری پارٹیاں اتحادی قومی حکومت کا حصہ بن جائیں تو مقتدرہ اور عدلیہ میں جو آج کل ٹھنی ہوئی ہے اسکی وجوہات ہی ختم ہو جائیں گی تو یہ معاملہ بھی خود بخود ٹھیک ہو جائے گا اوورسیز پاکستانیوں کا غصہ بھی اتر جائے گا۔
مندرجہ بالا تجویز پر اپنے گاوں کے کشف باباجی سے مشورہ مانگا۔تو انہوں نے مشورہ دینے سے پہلے ایک دلچسپ کہانی سنائی ۔ کہتے ہیں کہ گاوں کا ایک معزز اور ہر دلعزیز شخص ایک لاکھ روپے جیب میں رکھ کر شہر خریداری کرنے جارہا تھا کہ راستے میں تین ڈاکووں نے اسے مارپیٹ کر اس سے رقم چھین لی۔ گاوں والوں کو خبر ہوگئی تو وہ ڈنڈے اور چھریاں چاقو لے کر پہنچ گئے اور ڈاکووں کو مجبور کرکے گاوں کے قاضی صاحب کے پاس لے گئے۔گاوں کا قاضی بھی ویسے ہی نظریہ ضرورت کا عادی تھا جیسے کہ پاکستان کی عدلیہ ۔اس نے فورا بھانپ لیا کہ اگر ڈاکووں کے خلاف فیصلہ کروں تو وہ اگلے دن اس کے بیٹے کو بھی اٹھا لیں گے۔اس لئے اس نے مدعی اور مدعا علیھان کو پیار سے پاس بٹھا کر پہلے روح افزا شربت پلائی اور پھر ان کو تلقین کی کہ صلح میں ہمیشہ برکت ہوتی ہے۔اس لئے آپ لوگ آپس میں صلح کرلیں۔مدعی نے کچھ کہنا چاہا تو قاضی نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اسے تنبیہ کی کہ عدالت میں قاضی کی اجازت کے بغیر بولنا تو ہین عدالت ہے ۔ جس پر تجھے سخت سزا دی جاسکتی ہے ۔ ڈاکوئوں کے سردار نے قاضی کے کان میں کہا کہ جناب یہ تو میری شرافت اور قانون پسندی ہے کہ میں آپ کی عدالت میں چلا آیا ورنہ میرے پاس اتنی طاقت ہے۔۔کہ میرے ایک اشارے پر نہ مدعی ہوگا۔نہ آپ اور نہ آپ کی یہ عدالت ۔ میں چاہوں تو سب کو گھروں میں نظر بند کرکے پورے گائوں کا انتظام خود سنبھال سکتا ہوں۔ ذیادہ سے ذیادہ یہ ہوگا کہ گائوں کے چند معززین کو اپنی کابینہ میں شامل کرکے لوٹ مار کے مال میں سے کچھ حصہ ان کو دوں ۔پھر دیکھ لیں ہماری انصاف پسندی اور طاقت کے قصیدے ۔ قاضی صاحب گھبرا گئے فرمایا۔نہیں سر ! آپ خدا کیلئے ایسا نہ کریں۔لوگوں کے تیور بہت بگڑے ہوئے ہیں۔ان حالات میں آپ کیلئے شیر پر چڑھنا تو آسان لیکن اتر نا مشکل ہوگا۔ آپ بس میرے کان میں بتا دیں کہ اس مقدمے کا انصاف پر مبنی کیا فیصلہ ہوگا تاکہ گائوں کے نوجوان لاٹھیاں پھینک دیں ۔قا ضی صاحب اور ڈاکووں کے سردار کے درمیان کچھ کھسر پھسر ہوئی۔جس کے بعد قاضی صاحب نے اعلان کیا کہ مقدمے کا بغور جائزہ لینے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں ۔ کہ گاوں میں بہت غربت ہے اور گائوں کے چاروں طرف دشمن دیہات موجود ہیں۔جو اس گائوں پر کسی بھی قوت حملہ کر سکتے ہیں۔اس لئے ان نازک صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوے میری عدالت یہ فیصلہ کرتی ہے کہ مال مقدمہ ایک لاکھ روپے قریبی دکاندار کے پاس رکھے جائیں اور اسے ہدایت کی جائے کہ آئندہ دو سال تک مدعی اور تینوں مدعا علیھان کو ہر مہینے اس رقم میں سے چائے ،چینی اور دال چاول وغیرہ برابر مقدار میں دئیے جائیں ۔دوسال کے بعد یہ رقم اور اس معاہدے کی مدت ختم ہو جائیگی اور فریقین کو اجازت ہوگی کہ آئندہ کے گزر بسر کیلئے اپنا اپنا بندوبست کر لیں۔اس دوران جو دہشت گرد اور شرپسند لاٹھیاں لے کر اس انتظامیہ اور عدالت پر حملہ آور ہوے ہیں ۔ ان کو غیر معینہ مدت کیلئے گھروں میں نظربند کیا جائے ۔قاضی صاحب کا انصاف اور دور اندیشی پر مبنی فیصلہ سن کر گاوں کے لوگوں نے خوشی سے تالیاں بجا ئیں۔ مدعی نے کچھ کہنے کی کوشش کی لیکن قاضی صاحب کے باڈی گارڈ اسے ہاتھ پاوں سے پکڑ کر نا معلوم مقام کی طرف لے گئے۔
کشف باباجی کی کہانی سن کر ہم دم بخود بیٹھے تھے۔کہ اچانک کشف باباجی نے پھر کھانسی بھری اور فرمانے لگے ۔کہ کچھ صلح جو لوگ ملک و قوم کو کیچڑ سے نکالنا چاہتے ہیں۔لیکن اس بات کو چھیڑنا نہیں چاہتے کہ ملک و قوم کو اس سے پہلے بھی تین بار کیچڑ میں دھکیلنے والے کون تھے اور اگر دل پر پتھر رکھ کر اور مونچھیں نیچی کرکے چوتھی مرتبہ بھی ملک و قوم کو کیچڑ سے نکالا جائے تو اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ اس کو پانچویں مرتبہ کیچڑ میں نہیں دھکیلا جائیگا۔اگر پانچویں مرتبہ پھر کیچڑ میں ملک کو دھکیلا جانا ہے تو پھر بہتر ہے ملک و قوم کو کیچڑ میں رہنے دیں۔ فکر وہ کریں جو بار بار دھکیلنے کے عادی ہیں۔ اس دفعہ وہ خود ہی یہ گند سنبھالیں۔اور پلان اے ‘ پلان بی اور پلان سی وغیرہ کے نقشے سمیٹ کر اس دفعہ پلان فائنل کے ذریعے ملک و قوم کو کیچڑ سے نکالیں۔ کوئی چار دہائیاں قبل بزرگ سیاستدان اور سابق وزیر اعلی بلوچستان جناب عطا اللہ مینگل نے بھی ایک اخباری انٹرویو میں اسی بات پر زور دیا تھا کہ مسلہ اس وقت صرف یہ نہیں ہے کہ جنرل ضیاالحق مارشل لا اٹھا لیں اور جمہوریت بحال کرائیں ۔ بلکہ بات اس سے آگے کی ہے۔ اب صرف خالی خولی جمہوریت بحال کرنا نہیں بلکہ عوامی نمائندوں کو اقتدار کے ساتھ ساتھ اختیار بھی منتقل کرنا ہوگا تا کہ وہ ملک کا کوئی رخ متعین کر سکیں۔ابھی تو ملک بے سمت دوڑ رہا ہے۔اور یہ پتہ نہیں چل رہا کہ یہ ملک کس مقصد کے لئے بنا یا گیا تھا۔ مزید یہ کہ اس بات کی گارنٹی بھی دینی ہوگی کہ اس جمہوریت کو چلنے دیا جائیگا اور آئندہ تیس چالیس سال تک کوئی نیا فوجی آمر اس پر کوئی وار نہیں کریگا۔اب صرف اور صرف انصاف کا نظام ہی ملک کو بچا سکتا ہے ۔ورنہ عوام کے تیور اس دفعہ کچھ اور بتا رہے ہیں۔پیپلز پارٹی کے راجہ پرویز اشرف نے اس ہفتے اسمبلی سے خطاب کے دوران وزیراعظم جناب شہباز شریف کو مخاظب کرکے یہی نصیحت کی ہے۔کہ بحران کے خاتمے کیلئے فوری قدم اٹھائیں۔
Load/Hide Comments