نیمے درون نیمے برون

9مئی کے ملزمان کے مقدمات آگے بڑھیں اور تحقیقات و عدالتی کارروائی کی تکمیل ہو تبھی حتمی طور پر اس کے ذمہ داران کا تعین ہو سکے گا معمہ یہ ہے کہ یہ واقعہ ہو چکا اس کے ویڈیوز بھی موجود ہیں گرفتاریاں بھی ہو چکی ہیں لیکن اس کے باوجود ضروری قانونی عمل میں تاخیردرتاخیر ہو رہی ہے سال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود بھی اس حوالے سے معاملات التواء کا شکار ہیں لیکن بہرحال کچھ بھی ہواس واقعے سے انکار کی گنجائش نہیں تحریک انصاف کی قیادت من حیث المجموع اس واقعے کی ذمہ داری قبول کرتی ہے یا اسے اپنے بعض جذباتی رہنمائوں اور کارکنوں کا فعل گردان کر بری الذمہ ہوتی ہے اس کا فیصلہ تحریک انصاف کی قیادت نے کرنا ہے لیکن جس طرح سے اس سے بری الذمہ ہونے کی راہ تلاش کی جارہی ہے شاید یہ اتنا آسان نہیں او ر نہ ہی کوئی فریق اتنی آسانی سے اس سے صرف نظر کرکے معاملات کو آگے بڑھانے کے لئے آمادہ نظر آتی ہے بلکہ محولہ فریق کا تو بار بار اصرار ہے کہ اس واقعے سے نہ صرف صرف نظر ممکن نہیں بلکہ ان واقعات میں ملوث عناصر کو ہر قیمت پر کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا ایسے میں تحریک انصاف کے قائد کی جانب سے ایک جانب مشروط معافی مانگنے کا عندیہ اور دوسرے ہی لمحے خود سے معافی مانگنے کا مطالبہ مغالطہ انگیز ہے جب تک اس حوالے سے کوئی ٹھوس موقف اپنایا نہیں جاتا اور فریقین معاملہ اس پر اتفاق نہیں کرتے اس واقعے کو یوں پس پشت ڈالنے کے امکانات نظر نہیں آتے اس حوالے سے متاثرہ فریق کا موقف تو واضح اور شواہد سے ثابت ہے جبکہ ایک فریق معاملہ نہ تو پوری طرح اس واقعے سے منکر ہے اور نہ ہی اسے قبول کرنے پر آمادہ ہے نیمے درون نیمے برون قسم کے اس عمل سے وابستہ بہت سے معاملات التواء کا شکار ہیں جس کے اثرات سیاست و حکومت اور معیشت و اقتصاد پر مرتب ہو رہے ہیں بانی پی ٹی آئی کی ان دنوں جب بھی میڈیا سے بات ہوتی ہے وہ مسلسل معاملات کو آگے بڑھانے کی دبی خواہش کا اظہار تو کرتے ہیں مگر ساتھ ہی وہ اس امر کا عندیہ بھی دیتے ہیں کہ معاملات پر بات چیت ان کی شرائط پر ہو گی نیز وہ حکومت کی بجائے مقتدرہ ہی سے بات چیت پر زور دیتے ہیں لیکن دوسری جانب سے ان کے بیانات پر کسی ردعمل کا اظہار سامنے نہیں آتا یہ ممکن ہی نہیں کہ فوج بات چیت کے لئے نمائندے کا تقرر کرے فوج کے پاس اس طرح کا نہ تو اختیار ہے اور نہ ہی یہ ان کے مینڈیٹ میں آتا ہے مستزاد اس طرح کا مطالبہ اور اس پر پیشرفت تو سیاسی معاملات میں مداخلت اور ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی میں شمار ہو گا علاوہ ازیں بھی بہت سے عوامل اور رکاوٹوں کے باعث یہ بیل منڈھے چڑھنے کے قابل ہی نہیں اس وقت کسی طور بھی مذاکرات کا ماحول نظر نہیں آتا اگر مذاکرات کی ضرورت و اہمیت ہے تو وہ جماعت اسلامی کے مطالبات اور عوامی مسائل ہیں جس کے مد میں سلسلہ جنبانی جاری ہے سیاسی حکومت میں اختلافات طے کرنے مذاکرات اورملک میں سیاسی و معاشی استحکام کے لئے اقدامات کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے یہ حکومت ہی کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرے بلاشبہ سیاسی معاملات تقطیب کا باعث بن چکے ہیں ان کی پیچیدگی کے اثرات عدالت سے لے کر ایوان اور عوام تک محسوس ہوتے ہیں جس کا تقاضا ہے کہ اس معاملے کے فریق ہی بات چیت کا راستہ اختیار کریں غیر مجاز عناصر کی نہ تو مداخلت ہونی چاہئے اور نہ ہی ان کو اس طرح کے معاملات میں ملوث کیا جائے جن اداروں کا کردار آئینی طور پر غیر جانبدار اور حکومت کے تابع ہونے کا ہے وہ خود بھی اس کردار تک محدود ہوں اور ان کو ملوث کرنے کی سعی بھی نہیں ہونی چاہئے ۔ ملکی معاملات کس طرح آگے بڑھائے جا سکتے ہیں اس کا فیصلہ عوامی نمائندوں نے ہی کرنا ہے اور جب تک اس سطح پر آزادانہ فیصلہ کی کوئی صورت نظر نہیں آتی اس وقت تک کسی بھلائی کی امید بھی نظر نہیں آتی جو لوگ پاکستان اور بنگلہ دیش کے عوامی جذبات کا موازانہ کر رہے ہیں انہیںاس بنیادی فرق کومد نظر رکھنا چاہئے کہ پاکستان میں افراد اور شخصیات کے لئے جدوجہد غالب ہے جماعت اسلامی عوامی مطالبات لئے سڑکوں پر ہے لیکن سوائے اس کے اپنے کارکنوں کے کوئی بھی سیاسی جماعت اور گروپ سیاست سے بالاتر ہو کر ان کی حمایت پر آمادہ نہیں جبکہ بنگلہ دیش میں طلبہ اور عوام نے نظام کے خلاف جدوجہد کی اور کامیاب جدوجہد کے بعد عبوری حکومت کی تشکیل کو بھی کسی کے اشارے اور مرضی پر نہیں چھوڑا بلکہ عوامی امنگوں کے مطابق فیصلہ کیا گیا پاکستان میں اگر تبدیلی مطلوب ہے تو عوام کو شخصیات کی بجائے نظام کے خلاف عوامی جدوجہد کرنی پڑے گی اور سیاست کو بالائے طاق رکھ کر ملک اور عوام کی بات کرنی ہو گی اس کے لئے راہ ہموار کرنے کے لئے جس ماحول کی ضرورت ہے وہ فی الحال ہمارے ہاں نظر نہیں آتا اور نہ ہی عوامی تیور سے اس کا اشارہ ملتا ہے۔

مزید پڑھیں:  عقیدۂ ختم ِنبوت اور ہماری ذمہ داری