میرے بہت سے احباب جو جمہوری اقدار کی پاسداری کو اہمیت دیتے ہیں ، وہ اپنے مُلک کے ہر سیاسی کارکن اور رہنما کا خوب احترام کرتے ہیں ۔ میرے یہ دوست مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھتے ہیں ، جب بھی مل بیٹھ کر سیاسی امور پہ گفتگو کرتے ہیں تو اپنی سیاسی فکر کی بنیاد پر اختلاف ِ رائے رکھنے کے باوجود کبھی کسی سیاسی شخصیت کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال نہیں کرتے ۔ سیاسی بصیرت کے حامل یہ دوست جانتے ہیں کہ جمہوری عمل کے تسلسل ہی سے مُلک کا وسیع تر مفاد وابستہ ہے اور سیاسی ہم آہنگی کے ذریعے مُلکی مسائل اور بحرانوں پر قابو پایا جا سکتا ہے ۔ اپنی اس نشست میں جہاں جمہوریت کے حوالے سے مُلک کے بہتر مستقبل اور عوام کی سماجی و معاشی ترقی پہ بات ہوتی ہے تو وہاں سیاسی رہنماؤں اور خاص کر اراکین اسمبلی کے کچھ ایسے اقدامات کو اس لحاظ سے پسند نہیں کرتے کہ یہ کام ان معزز شخصیات کے شایان شان نہیں ۔
سیاست دانوں اور اراکین اسمبلی کے اعلیٰ منصب کے پیش نظر اپنے دوستوں کو ہر وہ عمل نامناسب معلوم ہوتا ہے جس سے ان سیاسی رہنماؤں کی تضحیک کا کوئی پہلو نکلتا ہو ۔ آج کالم لکھنے بیٹھا تو اچانک مجھے اہل سیاست کے بارے اپنے دوستوں کے چند اعتراضات اور ان کے منصب کی توقیر کے لیے چند تجاویز کا خیال آیا تو یہی مناسب سمجھا کہ یہی باتیں اراکین اسمبلی کی خدمت میں پیش کی جائیں ، شاید کسی کو متوجہ کر سکیں ۔
ان معزز اراکین کی ایک اکثریت آئے روز مختلف سرکاری دفاتر میں موجود ہوتی ہے ، اپنے حلقہ انتخاب سے تعلق رکھنے والوں اور دیگر عزیزوں کے ہر جائز و ناجائز کام کی سفارش کرنے کی خاطر ہر محکمہ کے چھوٹے بڑے افسر تک رسائی کرنے میں پیش پیش رہتی ہے ۔ یہ لوگ اس بات کا ہر گز خیال نہیں کرتے کہ کام کی نوعیت کیا ہے بلکہ معمولی اور ناجائز کام کی انجام دہی کے لیے غیر ضروری دباؤ بھی ڈالتے ہیں ۔ سرکاری محکموں میں بھی ایسا مافیا موجود ہے جہاں تجارتی بنیاد پر اراکین اسمبلی سے دوستی استوار ہو جاتی ہے ، دونوں فریقین ایک دوسرے کی مجبوری اور کمزوری کی خاطر لازم و ملزوم ہو جاتے ہیں ۔ ایسے میں اگر کسی اہلکار نے غلط کام کرنے سے انکار کیا تو پھر شکایت کے علاوہ اپنے استحقاق کے مجروح ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں ۔ ہاں البتہ اس مافیا یا سرکاری لٹیروں کے لیے ڈھال بنے رہتے ہیں ۔ بر سر اقتدار قیادت تو اپنے پیاروں کو ان کے من پسند عہدوں پر تعنیات کیے رکھتے ہیں ۔ ڈکٹیٹر ضیاء الحق نے اپنے دور آمریت میں غیر جماعتی اسمبلی کے اراکین کو ترقیاتی کاموں میں ملوث کر کے اور ترقیاتی فنڈ کی چمک سے ان کی غیر جمہوری تربیت کا آغاز کیا تھا ۔ آج اراکین اسمبلی انہی ترقیاتی کاموں کو اپنی کامیابی کا زینہ سمجھتے ہوئے کبھی کسی گاؤں میں بجلی کے ٹرانسفارمر کھمبے لگاتے ہوئے تو کبھی کسی گلی کوچے کی سڑک بناتے اور مین ہول پر ڈھکنا رکھتے ہوئے اپنی تصویریں کھینچنے میں مگن دکھائی دیتے ہیں ۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ان سیاسی رہنماؤں کا قد کاٹھ سرکاری محکموں کی عمارتوں سے بلند و بالا ہے مگر یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے منصب کی وقعت و وقار کو پس پشت ڈال کر محض معمولی کاموں کے لیے ان عمارتوں کے ایک ایک کمرے میں جھانکتے پھرتے ہیں ۔ رکن اسمبلی کی شخصیت اپنے حلقہ میں بڑی موثر ہوتی ہے ، وہ اپنے معاشرے میں اصلاح کا کام بخوبی کر سکتا ہے لیکن ووٹ کی خاطر ووٹروں سے اس قدر خوفزدہ ہوتا ہے کہ ان کے ناجائز کام کے مطالبہ پرٹوکنے کی بجائے ہم نوا بن کر اپنے رتبے کو داؤ پر لگا دیتا ہے ۔ سرکاری امور میں اراکین اسمبلی کی بے جا مداخلت یقیناً میرٹ کی نفی اور کارکردگی کے معیار کو متاثر کرتی ہے ۔ ان اداروں کی ناکامی سے کہیں زیادہ نقصان یہ ہو رہا ہے کہ لوگ مُلکی سیاست اور جمہوری اقدار سے متنفر ہوتے جا رہے ہیں ۔ ٹی وی ٹاک شوز میں یہ اہل سیاست اپنی بد زبانی کے باعث سب کی نظروں میں تماشا بن چکے ہیں ۔ چند غیر سنجیدہ اور کم فہم اینکر پرسن بن کر ان معزز شخصیات کا مذاق اُڑا رہے ہوتے ہیں بلکہ کئی مواقع پہ بد لحاظی بھی کرتے ہیں ۔ یہ ٹاک شوز دراصل سیاسی عمل کی نفی ہے اور اہل سیاست کو بس استعمال کیا جا رہا ہے ۔ اسمبلی فلور سے اُٹھ کر کسی غیر معتبر فورم پر آ کر بولنا ہمارے با وقار نمائندوں کو ہر گز زیب نہیں دیتا ۔ ان ٹاک شوز میں نہ آنے سے ان کی شہرت میں کمی نہیں ہوگی ۔ معزز اراکین اسمبلی !! ہم سب آپ کا بڑا احترام کرتے ہیں کہ اللہ نے آپ کو قوم کی رہنمائی کرنے پہ مامور کیا ہے ۔ آپ کا منصب افضل ہے ۔ سرکاری اہلکاروں کے تبادلوں میں کوئی دلچسپی نہ لیں ، لعنت بھیجیں کرپٹ مافیا اور ووٹروں کے نا جائز کاموں پر ، ترقیاتی کام متعلقہ محکموں کو آزادی سے کرنے دیں ، ٹاک شوز میں لا یعنی گفتگو کی بجائے جمہوریت کے فروغ کے لیے لیکچر دیں ۔ اسمبلی میں گالم گلوچ کی بجائے اپنی سیاسی فہم و فراست کے مطابق وہ بھر پور کردار ادا کریں کہ آپ کے عمل اور آپ کی باتوں میں ہماری آنے والی نسل کے لیے رہنمائی ہی رہنمائی ہو ۔ یہ سب جانتے ہیں کہ حالات سدھارنے کے لیے ہمیں ذاتی مفاد سے ہٹ کر اپنے دینی اور قومی فرائض کی طرف مائل بہ عمل ہونا ہو گا ۔
Load/Hide Comments