بنگلہ دیش، خواب تعبیر پا لیں گے ؟

بنگلہ دیش کی صورتحال پر پاکستان میں بہت کچھ لکھا جارہا ہے۔ جماعت اسلامی کے حامی ایک بار پھر خوابوں کے چھابے لگائے انقلاب انقلاب اسلامی انقلاب کی صدائیں لگارہے ہیں۔ ہر دور کے فوجی آمر کے لئے جگر کا ٹکڑا دینے والی مسلم لیگ کے متوالے ان میں وزیر دفاع خواجہ محمد آصف بھی شامل ہیں اچھل کود ہی نہیں رہے بلکہ کہہ رہے ہیں کہ شیخ مجیب الرحمن کی یادگاروں کا جوحشر ہوا وہ تاریخ کا انصاف ہے۔ لاریب شیخ حسینہ واجد کا طرز حکمرانی نامناسب تھا انہوں نے جمہوری سیاست میں انتقام کی فصل کاشت کی فقط یہی نہیں کہ انہوں نے سہ فریقی معاہدے کو پس پشت ڈالا ایسی قانون سازی کی جس سے وہ جماعت اسلامی سے انتقام لے سکیں بلکہ انہوں نے اپنے ہر مخالف کو دیوار کے ساتھ لگانے میں اتاولے پن کا مظاہرہ کیا۔ جمہوری نظام کے بنیادی تقاضوں کو نظرانداز کرکے بنگلہ دیش میں یک جماعتی نظام کی آمریت قائم کی اور خمیازہ بھگت لیا۔ کیا بات یہیں ختم ہوگئی ہے؟ ہماری رائے میں بات یہیں ختم نہیں ہوپائے گی۔ اس خطے برصغیر کے لوگوں میں کینہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ اس کینے کے مظاہرے کو محض وقتی جذباتیت قرار دینا کینہ پروری کے سوا کچھ نہیں۔ ایک ہی خمیر سے گندھے لوگ ردعمل کے مظاہرے میں دور تلک جاتے ہیں۔ مثلا 3 اگست تک حسینہ واجد کی حکومت کا ننگا ہتھیار بنی فوج نے 4 اگست کو اچانک پینترا بدلا اور عوام پر مزید تشدد کرنے سے معذرت کی اور راتوں رات ہیرو بن گئی اس کے برعکس بنگلہ دیش پولیس کو تحریک کے حامیوں کے پرتشدد رویوں کی وجہ سے ہڑتال پر جانا پڑگیا۔ کسی نے سوچا کہ 4 اگست کو مظاہرین کے حق میں ایک جیسا بیان دینے والے دو محکموں فوج اور پولیس میں سے ایک ہیرو اور دوسرا عوامی نفرت کا نشانہ کیوں بن گیا؟ دانش کے موتی رولتے دانشوروں کو اس سوال کا جواب ضرور تلاش کرنا چاہیے۔6اگست کو بنگلہ دیش کی طلبہ تحریک کے قائدین کو ایوان صدر لے جایا گیا جہاں انہوں نے صدر مملکت سے درخواست کی کہ گرامین بینک والے محمد یونس کو وطن واپس لاکر عبوری حکومت کا سربراہ یا نگران بنایا جائے۔ یقینا یہ ا یک سنجیدہ کوشش تھی مگر اسی6 اگست کو بنگلہ دیش کے طول و عرض میں عوامی لیگ کے ارکان پارلیمنٹ اور حامیوں کے گھروں پر حملے ہوئے درجنوں گھروں کو جلادیا گیا۔ اسی دن ڈھاکہ میں عوامی لیگ کے ایک رکن پارلیمنٹ کے ہوٹل کو تبدیلی پسند مظاہرین نے جلادیا اس واقعے میں24 افراد جل کر جاں بحق ہوگئے۔ کیا کسی کو نہیں لگتا کہ طلبہ تحریک کی آڑ میں کچھ کالعدم جماعتوں کے حامی اپنا حساب چکتا کرنے کے لئے میدان عمل میں اتر آئے ہیں؟چھ اگست کو طلبہ تحریک نے پارلیمنٹ تحلیل کرنے کا مطالبہ کیا کچھ ہی دیر میں پارلیمنٹ تحلیل کردی گئی۔ بظاہر اس کے لئے صدارتی فرمان جاری ہوا مگر کیا آئینی تقاضے پورے ہوئے۔ فوج جو کہہ رہی ہے کہ فیصلے ہم کریں گے آئین کی کس شق میں اسے یہ اختیار حاصل ہے۔ ملک بھر میں عوامی لیگ کے حامیوں کے خلاف شروع ہوئی پرتشدد کارروائیوں کو روکنے کی ذمہ داری کس پر ہے۔ پولیس ہڑتال پر ہے پیچھے فوج رہ جاتی ہے۔ اس کے تو اپنے باوردی جوان مظاہرین کے ساتھ مل کر شیخ مجیب الرحمن کے مجسمے توڑتے دکھائی دے رہے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ طلبہ تحریک میں ابتدا ہی سے ترقی پسند نظریات کے حامی فعال افراد سرگرم عمل تھے انہوں نے ہی تحریک کو منظم اور ملک گیر بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ یقینا ایسا ہی ہوگا۔ اس حوالے سے معروف ترقی پسند رہنما جنید سکیب اور ان کی بنگلہ طلبہ فائونڈیشن کا نام لیا جاتارہا ہے کہ جنید سکیب اور انکے ساتھیوں نے مارکسی نظریات پر ہم خیالوں کو فعال کرنے میں کردار ادا کیا۔ طلبہ کی انسداد ناانصافی کمیٹی ہو یا یونیورسٹی کے معلمین کی تنظیم حکومت مخالف تحریک کو فکری غذا فراہم کرنے اور تحریک کو منظم کرنے میں ان کے کردار سے انکار ممکن نہیں مگر حیران کن بات یہ ہے کہچھ اگست کو ایوان صدر میں صدر مملکت سے ملاقات کرنے والے وفد میں بنگلہ طلبہ فائونڈیشن کی نمائندگی نہیں تھی خیر میں جس بات یا سوال کو پڑھنے والوں کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ تحریک کی کامیابی کی صورت میں عوامی لیگ کے خلاف پرتشدد جوابی کارروائیوں کا کسی کو اندازہ نہیں تھا یا یہ سمجھا گیا کہ ایسا نہیں ہوگا اور پھر جو ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ کیا اس مرحلہ پر جب تحریک پرامن انداز میں مطالبات منوانے کی پوزیشن میں تھی تشدد کا دروازہ کھول کر اقتدار پر فوج کی گرفتار مضبوط کرنے کی کوشش تو نہیں کی جارہی؟ بنگلہ دیش کی موجودہ صورتحال اور لمحہ بہ لمحہ بدلتے مزاجوں کے حوالے سے بردار عزیز محمد عامر حسینی نے زمینی حقائق سے عبارت بھرپور تجزیہ کیا انہوں نے یونیورسٹی اساتذہ کی تنظیم کے دونوں رہنمائوں کا تفصیلی تعارف بھی لکھا۔ ہمارے پیش نظر فی الوقت یہ ہے کہ کیا طلبہ کمیٹی برائے انسداد ناانصافی اس کمیٹی میں بنگلہ دیش کی تقریبا تمام طلبا تنظیمیں شامل ہیں اپنی اخلاقی قوت اور عوامی مقبولیت ہر دو کو بروئے کار لاتے ہوئے پرتشدد کارروائیوں کو روک پائے گی؟سات اگست کے بنگلہ دیشی اخبارات نے ڈھاکہ میں ہوٹل جلادیئے جانے سے ہونے والے جانی نقصان کے علاوہ بھی ایک سنگین خبر دی وہ یہ کہ ملک کے بعض حصوں سے عوامی لیگ کے حامیوں اوران کے خاندانوں کے افراد کی بیس نعشیں ملی ہیں۔ کم از کم مجھے ایسا لگتا ہے کہ طلبہ و عوامی تحریک کی کامیابی کی آڑ میں وہ قوتیں منظم ہوکر تشدد کو بڑھاوا دے رہی ہیں جنہیں عوامی لیگ یا یوں کہہ لیجئے شیخ حسینہ واجد نے دیوار سے لگادیا تھا ۔چھ اگست کی شام ایوان صدر میں جس 30رکنی وفد نے صدر مملکت سے ملاقات کی اس وفد نے مستقبل کے منظرنامے کے حوالے سے اپنی معروضات تفصیل کے ساتھ صدر مملکت کے سامنے رکھیں۔ ان معروضات کو کتنی پذیرائی ملتی ہے یہ عبوری حکومت کے اعلان کے بعد واضح ہوگا فی الوقت اس خدشے کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں کہ عوامی لیگ کے حامیوں کو ویسے حالات سے دوچار ہونا پڑے گا جس طرح کے حالات سے اس نے اپنے مخالفین کو دوچار کیا تھا ۔ پانچ اگست کے دن ظہور پذیر ہونے و الی تبدیلی کے جو مناظر دنیا نے دیکھے (تشدد، نفرت کے مظاہرے، لوٹ مار) ان پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔

مزید پڑھیں:  ہسپتالوں میں فارمیسی شاپس