حکومت کی جانب سے عندیہ دیاگیا ہے کہ15آئی پی پیز کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں پر نظرثانی کا فیصلہ کرتے ہوئے ان سے معاہدے ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق حکومت نے مہنگی بجلی سے ستائے عوام کو ریلیف کے لئے اقدامات شروع کر دیئے۔ ذرائع کے مطابق 90ء کی دہائی میں لگنے والی آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے آئندہ تین سے پانچ سال میں مرحلہ وار بنیادوں پر ختم کئے جائیں گے۔سخت عوامی دبائو اور تنقید کے بعد اگرچہ حکومت کی جانب سے آئی پی پیز کمپنیوں سے معاہدوں پر نظر ثانی کا فیصلہ کیاگیا ہے لیکن شاید ایسا نہیں جس کا تاثر دیا جارہا ہے کہ حکومت ان کمپنیوں سے معاہدے ختم کر رہی ہے البتہ یہ ضرور ہے کہ حکومت ان کمپنیوں سے معاہدے کی مدت کی تکمیل کے بعد معاہدے کی مدت میں مزید توسیع نہ کرے جس کی ضرورت بھی ابھی باقی نہیں رہی بلکہ حکومت کو قبل ازیں یہ قدم اٹھا لینا چاہئے تھا کہ جن نجی کمپنیوںسے معاہدے کی مدت مکمل ہو چکی تھی اس میں توسیع نہ کی جاتی لیکن بہرحال بجلی کی قلت پیدوار اور رسد و طلب کے معاملات میں عدم توازن اور لوڈ شیڈنگ بھی اپنی جگہ ناقابل برداشت مسئلہ ہے اب جبکہ حکومت نے بتدریج مہنگی بجلی خریدنے اور آئی پی پیز کو دی جانے والی کیپسٹی چارجز کا بوجھ سر سے اتارنے کا فیصلہ کیا ہے تو ان کمپنیوںکی بندش کے بعد درپیش حالات کا بھی ادراک اور منصوبہ بندی پر توجہ کی ضرورت ہے بجلی کے بار بار مہنگی ہونے کے جہاں نقصانات ہی نقصانات ہیں وہاں لوگ اس بحران کے اپنے طور پر حل کی سعی میں بڑے پیمانے پر شمسی توانائی پر منتقل ہونے کا جو قدم اٹھا رہے ہیں اس کی حوصلہ شکنی کی بجائے حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے گرین انرجی کا استعمال اور اس پر منتقلی صرف ایندھن کے بحران ہی کے لئے نہیں بلکہ کاربن اور آلودگی میں کمی لانے کے لئے بھی یہ عمل ناگزیر ہے اس ضمن میں حکومت کی جانب سے بلاسود قرضوں کی فراہمی کے ساتھ گرین میٹرز کی تنصیب میں بھاری رشوت کی وصولی کی روک تھام کے لئے قدم اٹھاناچاہئے حیرت انگیز امر یہ ہے کہ بھاری رشوت کی کھلم کھلا وصولی کے باوجود حکومت اور واپڈا بطور ادارہ اس کی روک تھام میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہی ہیںاس ضمن میں بدترین بدعنوانی اور رکاوٹوں کو دور کرکے یہ عمل آسان بنایا جائے اور شمسی توانائی پر منتقلی کی حوصلہ افزائی کی جائے تو بجلی کے بحران کے ساتھ ساتھ قدرتی گیس کے بحران پر بھی قابوپانے میں اس لئے مدد مل سکتی ہے کہ شمسی توانائی کا استعمال کھانا پکانے ، پانی گرم کرنے اور گھروں میں ہیٹر لگانے کا بھی سستا ذریعہ ہے اور قدرتی گیس کی ناپیدگی لوڈ شیڈنگ اور مہنگے داموں ہونے کی بناء پر صارفین کے لئے شمسی توانائی پر منتقلی ایک بہتر راستہ ہے صارفین کی معقول تعداد کا بجلی قدرتی گیس اور ایندھن کے حصول کے لئے حکومت پر دارومدار کم ہو جائے تو اس سے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں اور قدرتی گیس فراہم کرنے والی کمپنیوں کے نظام پر دبائو میں کمی آسکتی ہے اور فاصل بجلی و قدرتی گیس صنعتوں کارخانوں اور دیگر تجارتی و پیداواری مقاصد کے لئے مہیا ہوسکتی ہے ۔ حکومت کی جانب سے جہاں ایک جانب بجلی کے نرخوں اور استعمال کے سلیب میں اصلاات کا عندیہ دیا جارہا ہے وہاں دلچسپ امر یہ ہے کہ اس کی دعویدار وفاقی حکومت نے بجلی 2 روپے 56پیسے فی یونٹ مزید مہنگی کردی۔حکومت کو بجلی اور قدرتی گیس ہر دو شعبوں کو عوام سے وصولی کا آسان ذریعہ سمجھ کر مضحکہ خیز طور پر ان کی خرید کردہ ملکیتی میٹر کی قیمت وصولی کے بعد پھر اس کاماہانہ کرایہ وصول کرنے اور کئی قسم کے ٹیکسوں کی وصولی کے ظالمانہ اقدامات پر اب نظر ثانی کرنی چاہئے لائن لاسز اور بجلی و گیس کی چوری کی روک تھام اور بلوں کی سو فیصد وصولی زیادہ مشکل کام نہیں مگر حکومت اس میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کی بجائے دبائو میں آتی ہے نیز بدقسمتی سے اس مسئلے پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں تعاون کا فقدان ہے جس کا فائدہ بدعنوان عناصر اٹھاتے ہیں اس بارے دو رائے نہیں کہ ایندھن کی قیمتوں کے پیداواری شعبے پر بہت اثرات مرتب ہوتے ہیں ایندھن کی مہنگائی کے باعث صنعتی و کاروباری شعبے میں بجلی و قدرتی گیس اور ڈیزل و پٹرول کے استعمال میں نمایاں کمی آئی ہے اور پیداواری صلاحیت کے متاثر ہونے کے اثرات مہنگائی و بیروزگاری اور غیر ملکی مصنوعات کے استعمال کی وجہ سے قیمتی زرمبادلہ کے ذخائر پر دبائو کی صورت میں سامنے آرہے ہیں جن سے نمٹنا صرف اسی وقت ممکن ہو سکے گا جب ایندھن کی قیمتیں قابل برداشت ہوں اس کے بعد ہی معیشت کا پہیہ چل سکتا ہے اس جمود کو توڑ کر ہی معاشی نمو میں اضافہ او رتجارتی خسارے سے نکلنے کی راہ نکل آئے گی۔