پاکستان پیپلز پارٹی کے جوانسال چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ ایک ادارہ بار بار پارلیمان میں مداخلت کر رہا ہے۔قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا پاکستان کے جو حالات ہیں وہ ایسے ہیں کہ کچھ آپ کے ہاتھ میں ہیں کچھ آپ کے ہاتھ میں نہیں، اس وقت جو بحران ہے ادارے کے درمیان ایک فاصلہ نظر آرہا ہے اور یہ اس لیے بن رہا ہے کہ ایک ادارہ اس ادارے میں بار بار مداخلت کرتا ہے، عدلیہ کی تاریخ تو پورے ملک کے سامنے ہے۔سابق وزیر خارجہ نے کہا کہ جب تک ملک آئین و قانون کے مطابق نہیں چلے گا، جب تک ادارے اپنی حدود میں رہ کر کام نہیں کریں گے تب تک جس مقصد کے لیے ہم یہاں بیٹھیں ہیں اس پر ہم عوام کی امیدوں کے مطابق چل نہیں سکیں گے،عدلیہ کے حوالے سے بلاول بھٹو کے طنزیہ خطاب سے قطع نظر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ جرنیلوں اور بیوروکریٹس نے ملک کا نظام سنبھال لیا ہے اٹارنی جنرل کو کچھ پتا ہی نہیںاگرچہ چیف جسٹس نے ایک خاص مقدمے کے تناظرمیں یہ بات کہی ہے لیکن ان کی کہی ہوئی بات صرف ان کے خیالات نہیں بلکہ اس وقت مجموعی عوامی تاثر بھی یہ ہے کہ ملک کا انتظام سنبھالنے کے کام میں مداخلت ہو رہی ہے اگرچہ یہ مداخلت نئی بات نہیں لیکن حالیہ سالوں میں یکے بعد دیگرے مختصر مدت کی تین چارحکومتوں میں مداخلت اور فیصلے لکھوانے کا عمل اور حکمرانوں کی جانب سے سرتسلیم خم کرنے کی روایت ماضی کے ریکارڈ توڑ چکی ہے سیاستدانوں کو صرف مقتدرہ ہی سے شکایت نہیں اب مقتدرہ کے ساتھ ساتھ عدلیہ کے حوالے سے بھی جو خیالات زیر گردش ہیں اس کی ایک جھلک سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے بیان سے واضح ہے مشکل ا مر یہ ہے کہ یہاں سیاستدان مقتدرہ اور عدلیہ ہر کسی کا اپنا اپنا سچ ہے اور ہر ایک کے حصے کی سچ سے سراسر انکارکی بھی گنجائش نہیں پورا سچ یہ ہے کہ اس چپقلش اور تنہا پرواز کے باعث ملک کا نظام درہم برہم ہے عوام مشکلات کا شکار ہیں اور تقطیب کے باعث دوست ممالک تک ہم پر اعتبار کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں یہاں ملکی مفاد پر ادارہ جاتی اور سیاسی مفاد غالب رہتا ہے عوامی مفاد وہی کہلاتا ہے جس کی تشریح محولہ عناصر اپنے اپنے انداز سے کریں نہ کہ عوام کے مفاد کو عوام کے نقطہ نظر سے دیکھ کر ان کے مفاد میں فیصلہ کیا جائے یہاں ہر راستہ شاہراہ دستور سے شروع تو ہوتا ہے مگر اس کی منزل پارلیمان اورایوان نہیں اس کی منزل وزیر اعظم ہائوس ، ایوان صدر اور عدلیہ و مقتدرہ کے صدر دفاتر ہیں اورفیصلوں کے ماخذ وہاں متمکن اعلیٰ شخصیات ہوتی ہیں یہی وجہ ہے کہ ہر سفر ادھورا اور ہر منزل بے منزل اورنامراد ٹھہرتی ہے بجائے اس کے اگر آئین اوردستور میں طے کردہ اصول اپنا لئے جائیں اقتدار شفافیت سے حاصل ہوسرکاری عہدیدار اور ادارے آئین اور دستور میں متعین کردار کا خود کو پابند کریں سیاستدان اور حکمران ملک و قوم کا مفاد اور عوامی مسائل کا حل ہر چیز پر مقدم رکھیں تو پاکستان کی سمت درست ہو سکتی ہے سمت درست ہو تو سفر آسان اور منزل دور نہیں ہوتی خلوص نیت اور دیانتداری سے کام کیا جائے اور ناخدا کی نظریں خدا پر ہوں تو بیڑا پار لگنا مشکل نہیں مگر پہلے اس کا قومی سطح پر ادراک تو ہو۔ایک جانب شکوہ ہے کہ ملک جرنیلوں اور بیورو کریٹس نے سنبھال رکھا ہے دوسری جانب سیاستدانوں کو شکوہ ہے کہ عدلیہ کے فیصلے اور مداخلت کے باعث نظام چلانے میں مشکلات درپیش ہیں جبکہ خود سیاستدان اور حکمران بھی شفافیت سے اقتدار میں آنے اور حزب اختلاف کا جمہوری کردار ادا کرنے پر تیار نہیں جب تین اطراف سفرکی سمت ہو اور حقیقی منزل ایک ہو اور اس منزل کی درست سمت پر سفر ہی شروع نہ ہو تو پھر ملک کے حالات اس وقت جو تصویر پیش کر رہی ہیں بعینہ یہی ہونا ہوتا ہے جب تک ہٹ دھرمی اور مفاد پرستی اور جاہ پرستی رہے گی اور اجتماعی سوچ اور اجتماعی دانش کا مظاہرہ نہیں ہوگا ایک دوسرے کو مطعون کرنے کا سلسلہ ہی جاری نہیں رہے گا بلکہ قوم کی سمت بھی درست اور متعین نہیں ہو گی بہتر ہو گا کہ بعد از خرابی بسیار سہی اس کا ادراک کیا جائے اور قومی مفاد کو مقدم رکھنے کا مشترکہ اور عملی فیصلہ کرکے اس پر قائم رہا جائے تاکہ ملک اور عوام کی مشکلات میں کمی آئے اور ملک استحکام اور ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔