جیت کے باپ

تمام تر حکومتی اور کھیلوں سے متعلق اداروں کے نظر انداز کئے جانے کے باوجود اپنی محنت اور جدوجہد کے بل بوتے پر گولڈ میڈل جیتنے کے ساتھ ساتھ 92.97 میٹر کی تھرو کرکے اولمپکس کی تاریخ میں ریکارڈ قائم کرنے والے میاں چنوں کے قریب ایک گائوں کے رہائشی ارشد ندیم کی کامیابی پر عوام کی خوشی او ر والہانہ پن کی تو سمجھ آتی ہے حکمران کس خوشی میں اتاولے ہو رہے ہیں وہ سمجھ سے بالاتر ہے ان کو پاکستان کو عالمی سطح پر اعزاز حاصل ہونے پر خوشی کا حق ضرور حاصل ہے لیکن اگر ان کی جانب سے راتوں رات شہرت اور کامیابی پانے والے کھلاڑی کی ذرا سرپرستی اورحوصلہ افزائی ہوئی ہوتی امر واقع یہ ہے کہ ارشد ندیم کو اس کھیل میں آگے جانے کے لئے ضروری وسائل پر بحث کئی سالوں سے جاری تھی حقیقی صورتحال یہ ہے کہ ارشد ندیم نے اس مقابلے میں جانے سے قبل رواں برس مارچ میں بی بی سی کو بتایا تھا کہ ان کے پاس ایک ہی بین الاقوامی معیار کی جیولن ہے جو اس وقت خراب حالت میں ہے وہ جس عالم میڈل جیتا اس میں عوام کی دعائوں اور نیک تمنائوں کا ضرور عمل دخل ہو گا لیکن کسی طور یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ان کی کامیابی میں حکومتی اداروں کا بھی کوئی کردار رہا ہے ۔ وطن عزیز میں کھیلوں کو بھی سیاست اقربا پروری اور مالی بدعنوانیوں کا مرکز بنا دیا گیا ہے جس کے باعث جو ہر قابل سامنے نہیں آتے اور جن کو انفرادی موقع ملتا ہے ارشد ندیم اس کی ایک مثال ہے ماضی میں سکواش کی دنیا پر حکمرانی میں بھی اسی طرح انفرادی مساعی کا عنصر زیادہ تھا بہرحال سکواش کی قومی فضائی کمپنی پی آئی اے اور ایئر فورس نے کافی سرپرستی کی مگر اس میں بھی کامیابی کی ابتداء بہرحال انفرادی جدوجہد ہی سے ہوئی نقد انعامات کا اعلان بائیں، دائیں اور درمیان میں کیا گیا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ: ارشد کو یہ تعاون اس وقت کیوں نہیں ملا جب اسے سب سے زیادہ فنڈز کی ضرورت تھی؟ ملک اور اس کی حکومت حرکت میں آنے سے پہلے کچھ حاصل ہونے کا انتظار کیوں کرتی ہے؟ یہ قومی شان و شوکت کے ان لمحات کو تخلیق کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتا؟ یہ اس حقیقت کے باوجود کہ ارشد نے گزشتہ سال عالمی ایتھلیٹکس چیمپئن شپ میں چاندی کا تمغہ جیتنے سے پہلے 2022میں کامن ویلتھ گیمز میں سونے کے تمغے کے لیے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا تھا۔اس کی سرپرستی کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی ارشد کی کامیابی کے بعد حکومت اور کھیلوں کے حکام کو اس بارے میں دوبارہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کے کھلاڑیوں کو کس طرح بہتر طریقے سے فنڈز فراہم کیے جائیں، کیونکہ یہ وہی ہیں جو اعزازجیت کر لاتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  آئینی تقاضا