ناکامی کے اعتراف کی بجائے مافیا کی وکالت

صوبے میں ملاوٹ شدہ غیر معیاری اور زہر آلود دودھ کی فروخت پر بجائے اس کے کہ وزیر خوراک ایوان سے معذرت کرتے اور اپنی ناکامی تسلیم کرتے انہوں نے درپردہ ملاوٹ مافیا کادفاع کیا ہے قانون کے اطلاق کو تھانیداری سے تعبیر نہیں کیا جاتا بلکہ تھانیدار کا کام قانون کا نفاذ ہوتا ہے محکمہ خوراک اور درجنوں محکموں کی ذمہ داری ہونے کے باوجود کئی ملائوں میں مرغی حرام کیسے ہوتی ہے وہ ان اعداد و شمار سے ظاہر ہے جسے صوبائی وزیر خوراک خود ایوان میں پیش کیا خود ان کے گائے کے دودھ میں87فیصد پانی ہوتا ہے اور بھینس کے دودھ میں83سے85فیصد تک پانی ہوتا ہے۔گائے اوربھینس کے دودھ کو ملاکر پورے صوبے میں 583نمونے لئے جن میں سے صرف42ٹیسٹ پاس ہوئے جبکہ 92.8 نمونے فیل ہوئے ہیں۔ ملائوٹی دودھ میں گلوکوز، یوریا، میلی لائن، ڈیٹر جنٹ اور فارملین شامل ہوتا ہے جوکینسر کا باعث بن سکتا ہے ۔ کیمیکل ملے دودھ کی کوالٹی خراب ہوجاتی ہے۔محکمہ خوراک کے انچارج وزیر پر گندم کی خریداری کے موقع پر بھی انگشت نمائی ہوئی تھی جس سے قطع نظر اشیائے خوردنی میں ملاوٹ مضر صحت انداز میں سٹوریج اور خوراک تیار کرنے والے عملے کی صحت اور صفائی کے معیار کی عدم جانچ غرض جس بھی انداز سے اس کا جائزہ لیا جائے مضر صحت تو معمولی لفظ ہے زہر خوراکی کے اسباب پورے دکھائی دیں گی اس کی اصلاح وزیر خوراک کے ناتواں کندھے متحمل نہیں ہو سکتے جس کا تقاضا ہے کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا خود اس کا نوٹس لیں اورایوان میں اس پر بحث کرکے ضروری قانون سازی کی جائے اور جب تک قوانین نہیں بنتے اس وقت تک انتظامی مشینری کے تمام شعبے اور محکمہ خوراک مروجہ قوانین پر عملدرآمد یقینی بنائیں تو یہ بھی غنیمت ہو گی۔

مزید پڑھیں:  دور کے ڈھول یا واقعی عزم صمیم