کوئی نہیں آج میرے ساتھ دیکھ لو

وہ جسے انگریزی زبان میں ”نون ہسٹری” Known history کہتے ہیں یعنی معلوم یا دستیاب تاریخ ، اس کے بعد بنگلہ دیش میں حالیہ تبدیلی میں (معلوم نہیں اسے انقلاب کہا جا سکتا ہے یا نہیں؟) وہی تاریخ ایک بار پھر دوہرائی گئی یعنی جس طرح سوویت یونین میں کمیونزم کے خلاف بغاوت کے بعد سرخ انقلاب کے با نیوں کی یادگاروں کے ساتھ جو سلوک کیا گیا لگ بھگ وہی سلوک حال ہی میں بنگلہ دیش میں پاکستان سے علیحدہ ہونے والے کرداروں کے ساتھ روا رکھا گیا اور جس طرح انقلاب روس کے بانی مبانی لینن کے مجسموں کو سوویت یونین کے مختلف شہروںمیں عوام نے توڑ پھوڑ کر زمین بوس کیا ، اسی طرح بنگلہ دیش میں شیخ مجیب الرحمن کے مجسموں کو انقلابیوں نے نہ صرف زمین پر گرا دیا بلکہ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی پوسٹوں میں حسینہ شیخ حکومت کے خلاف غیض و غضب کا اظہار کرنے والوں نے نہ صرف ان مجسموں پر چڑھ کر ان پر ہتھوڑوں سے ضربیں لگا کر شیخ مجیب کے انقلاب کو تہس نہس کر دیا جبکہ ایک دو ویڈیوز تو ایسی بھی سامنے آئیں جن میں ان مجسموں پر چڑھ کر لوگ فارغ ہوتے بھی دکھائی دیئے اور یہی وہ مقام عبرت ہے جس سے انسان کو پناہ مانگنی چاہئے ۔ مرزا غالب کے ایک شاگرد حسان الہند میر غلام علی آزاد نے کہا تھا
زدہ ام برسر جہاں پاپوش
بی سبب ایں برہنہ پائی نیست
یعنی یہ برہنہ پائی بے سبب نہیں کہ جوتا دنیا کے سر پر مارا ہے یہ سفر جس کا اختتام شیخ حسینہ واجد کی فاشسٹ ، جابر اور ظالم حکومت کے خاتمے پر ایک انقلاب کی صورت میں ہوا اس کی ابتداء اور اختتام نشان عبرت کے طور پر تاریخ کا سیاہ باب رہے گا پاکستان سے علیحدگی کے حوالے سے شیخ مجیب الرحمن نے جس سازش کو بھارت کے حکمرانوں کے ساتھ مل کر ترتیب دیا تھا اس کی ابتداء بھارت کے ایک شہر اگر تلہ میں پاکستان کے وجود کے خلاف ہمہ وقت سرگرم عناصر نے ایک خفیہ اجلاس میں کی تھی جس میں شیخ مجیب الرحمن اور عوامی لیگ کی قیادت نے شرکت کی تھی ، اگرچہ پاکستان کی سیکورٹی اداروں کو اس حوالے سے واضح ثبوت ہاتھ لگ گئے تھے اور ان کی وجہ سے شیخ مجیب الرحمن کو پاکستان توڑنے کی سازش کرنے پر گرفتار بھی کر لیا گیا تھا مگر ملک کے اندر انتخابات کی گہما گہمی کے حوالے سے یحییٰ خان نے تمام سیاسی قائدین کی گول میز کانفرنس بلائی تو سیاسی قائدین کے دبائو میں آکر نہ صرف شیخ مجیب الرحمن کو رہا کر دیاگیا بلکہ اسے محولہ گول میز کانفرس میں شرکت کے لئے بھی بلایا گیا اس کے بعد عوامی لیگ کے چھ نکات کی بنیاد پر شیخ مجیب نے عوامی لیگ کو انتخابی میدان میں اتار کر سابقہ مشرقی پاکستان میں بڑے بڑے برج الٹ دیئے اور ملک کی واحد اکثریتی جماعت کے طور پر عوامی لیگ ابھر کر سامنے آئی تو انتخابات سے پہلے چھ نکات پر گفت و شنید پر آمادگی ظاہر کرنے والا شیخ مجیب اڑ گیا اور چھ نکات سے کم پر بات کرنے کو کسی صورت تیار نہیں ہو رہا تھا ، یہاں تک کہ ذوالفقار علی بھٹو نے عوامی لیگ کے ساڑھے پانچ نکات تسلیم کر لئے اور صرف آدھے نکتے پر مسئلہ آکر ٹک گیا یہ نکتہ خزانے کا تھا ، شیخ مجیب اور اس کے عوامی لیگ کا مطالبہ تھا کہ مشرقی پاکستان کی آمدن ڈائریکٹ ڈھاکہ کے سٹیٹ بنک میں جمع ہوتی رہے اور اس کے خرچ کرنے کا اختیار بھی ڈھاکہ حکومت کے پاس ہو جبکہ مغربی پاکستان کی قیادت اس پر کسی صورت راضی نہیں ہو رہی تھی ، اس دوران قومی اسمبلی کا اجلاس بھی شیخ مجیب کے دبائو پرڈھاکہ میں طلب کیا گیا مگربھٹو مرحوم نے مغربی پاکستان کے اراکین پارلیمنٹ کو دھمکی دی کہ اگر کوئی ڈھاکہ اجلاس میں شرکت کرنے چلا گیا تو میں اس کی ٹانگین توڑ دوںگا یہاں تک بھی کہا کہ جولوگ وہاں اجلاس میں شرکت کرنے جائیں وہ یکطرفہ ٹکٹ کٹوا کر طیاروں میں سفر کریں صورتحال دن بہ دن کشیدہ ہوتی جارہی تھی اس دوران ایک طرف یحییٰ خان حکومت کے تیور تیکھے ہوتے جارہے تھے (یحییٰ خان کسی طور اقتدار چھوڑنے کو تیار ہی نہیں تھا اور دونوں طرف کے سیاسی رہنمائوں کو لالی پاپ تھما رہا تھا) جبکہ دوسری طرف اگرتلہ میں پاکستان کو دو لخت کرنے کی جو سازش تیار کی گئی تھی اس پرمکتی باہنی کے تعاون سے مشرقی پاکستان میں مقیم افواج پاکستان کے خلاف چھاپہ مار جنگ مسلط کی گئی جس کے نتیجے میں شیخ مجیب کو ایک بار پھر بغاوت برپا کرنے کے جرم میں گرفتار کرکے مغربی پاکستان منتقل کر دیاگیا ، مگر تب تک حالات قابو سے باہر ہو چکے تھے اور مشرقی پاکستان کے منتخب سیاسی قیادت بھاگ کر ہندوستان چلی گئی اور وہاں عالمی میڈیا کے ذریعے پاکستان کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کرتے ہوئے نہ صرف جلا وطن حکومت قائم کرنے کا اعلان کیا بلکہ بھارتی ایجنسی را کے ایماء پر بھارتی حکومت سے درخواست کی کہ وہ پاکستانی افواج کے مبینہ ”چنگل” سے ”آزاد” کرانے میں مدد کرے اور یہی سازش کا وہ اہم نکتہ تھا جس کے انتظار میں بھارتی حکومت کب سے بے چین تھی ، اس نے اپنی افواج مشرقی پاکستان میں داخل کرکے فضائی حملوں سے وہاں موجود مختصر جنگی طیاروں کو نشانہ بنا کر پاکستانی افواج کو بے دست و پا کر دیا اس سے بھی پہلے بھارت نے مشرقی پاکستان میں حالات کی سنگینی کے بہانے پاکستان پر اپنی فضائی حدود پرپابندی عاید کر دی تھی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مشرقی پاکستان میںتعینات افواج کو سپلائی کی فراہمی بند ہو گئی ، اس کے بعد باقی تاریخ اور نتیجہ سقوط ڈھاکہ تاہم جب شیخ مجیب الرحمن کو بھٹو حکومت نے رہا کر دیا تو وہ لندن کے راستے بنگلہ دیش جا پہنچا اور اقتدار سنبھالنے کے بعد پاکستان کے حامیوں کے خلاف جس ظلم و بربریت کا بازار گرم کیا گیا وہ شیخ حسینہ واجد کے پندرہ سالہ اقتدار تک برقرار رہا مگر ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے کے مصداق بالآخر عوام اس کی حکومت کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی اور موصوفہ کو بھاگ کر جان بچانی پڑی یوں جو سازش آج سے نصف صدی سے کچھ پہلے اگرتلہ میں شروع کی گئی تھی وہ شیخ حسینہ واجد کے فرار کے بعد اگرتلہ میں ابتدائی طور پر پناہ لینے سے اختتام پذیر ہوئی مگر کہانی ختم نہیں ہوئی بلکہ بقول شخصے گیم تو ابھی شروع ہوئی ہے ۔ آگے کی کہانی بقول ڈاکٹر راحت اندوری کچھ یوں ہے کہ
خالی پڑے ہوئے ہیں مرے ہاتھ دیکھ لو
کوئی نہیں ہے آج مرے ساتھ دیکھ لو
میں جن کو دستیاب رہا قلب و جان سے
وہ جاتے جاتے کہہ گئے اوقات دیکھ لو (جاری)

مزید پڑھیں:  دیر آید درست آید